Home
Islamic Society Studies
Rural Women Pakistan Research
Social Issues
پاکستان کی دیہی خواتین کے سماجی مسائل اور ان کا تحقیقی مطالعہ | سماجی مسائل پر تحقیقی مقالہ (Pakistan ki Dehi Khawateen ke Samaji Masail aur un ka Tehqiqi Mutala | Social Issues Research Paper)
June 27, 2025

پاکستان کی دیہی خواتین کے سماجی مسائل اور ان کا تحقیقی مطالعہ | سماجی مسائل پر تحقیقی مقالہ (Pakistan ki Dehi Khawateen ke Samaji Masail aur un ka Tehqiqi Mutala | Social Issues Research Paper)

پاکستان کی دیہی خواتین کے سماجی مسائل اور  ان کا تحقیقی مطالعہ

 

تحقیقی مقالہ برائے بی ایس علوم اسلامیہ

 

مقالہ نگار:                              نگران مقالہ

مریم فقیر                                ڈاکٹر حا فظ سعید احمد ساجد

رول نمبر:BRSIS-20-23   اسسٹنٹ پروفیسر

                                           شعبہ علوم اسلامیہ

­

سیشن:2024-2020

شعبہ علوم اسلامیہ

گورنمنٹ گریجوایٹ کالج ملتان روڈ بورے والا(ملحق بہا ءالدین یونیورسٹی ، ملتان)

 

 

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا یَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ کَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَیْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن کَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَنْ تَکْرَهُوا شَیْئًا وَیَجْعَلَ اللَّهُ فِیهِ خَیْرًا کَثِیرًا۔

)سورۃ النساء: آیت 19(

ترجمہ:

مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کو وارث بن جاؤ۔ اور (نہ) انہیں اس نیت سے روک رکھو کہ جو کچھ تم نے انہیں دیا ہے، اس میں سے کچھ لے لو، ہاں اگر وہ صریح بےحیائی کا ارتکاب کریں (تو اور بات ہے)۔ اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ پھر اگر وہ تمہیں ناگوار گزریں تو (صبر کرو) شاید تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلا رکھ دے۔

 


حلف نامہ

       میں اقرار کرتی ہوں یہ مقالہ میری ذاتی کاوش کا نتیجہ ہے۔قبل ازیں اس عنوان کے تحت بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان یا کسی دوسری یونیورسٹی میں یہ مقالہ کسی بھی ڈگری کے حصول کے لیے پیش نہیں کیا گیا ہے۔

 

ــــــــــــــــــــــــــ

مریم فقیر

 

                                                                              

تصدیق نامہ

       طالب علم "مریم فقیر" نے بی ایس علوم اسلامیہ میں اپنا مقالہ بعنوان "پاکستان کی دیہی خواتین کے سماجی مسائل اور  ان کا تحقیقی مطالعہ " میری زیر نگرانی بہاء الدین زکریایونیورسٹی ملتان کے مقرر کردہ اصول و ضوابط کے مطابق مکمل کیا ہے۔ لہٰذا یہ مقالہ برائے حصول سند جانچ پڑتال کے لیے جمع کرانے اور مزید ضروری کارروائی کی سفارش کی جاتی ہے۔   

 

 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ڈاکٹر حافظ سعیداحمد ساجد

اسسٹنٹ پروفیسر

شعبہ علوم اسلامیہ





 

 

انتساب

اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نام

و

والدین کے نام

و

اساتذہ کے نام

 

 

اظہار تشکر

 (رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ)

اے میرے رب ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کی ہے۔

       اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے اپنی خاص مہربانی سے زیرِ نظر موضوع پر تحقیقی کام کرنے اور اسے حتی المقدور مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔

       سب سے پہلے، میں اپنے نگرانِ مقالہ  ڈاکٹر حا فظ سعید  احمد ساجدصاحبکی شکر گزار ہوں، جن کی رہنمائی اور ذاتی دلچسپی کی بنا پر اس تحقیقی مقالے کی تکمیل ممکن ہوئی۔ انہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود نہ صرف میری رہنمائی فرمائی بلکہ موضوع سے متعلق اسلامی علوم کے تناظر میں اصولِ تحقیق کے حوالے سے ایک نیا ولولہ اور جہت عطا کی۔

       اس تحقیقی کام کی تکمیل میں جن اساتذہ کرام اور محققین نے اپنی قیمتی مشوروں سے نوازا اور قدم قدم پر میری بھرپور علمی اعانت کی، ان کا تذکرہ نہ کرنا ناشکری ہوگی۔ محترم پروفیسر حافظ محمد  فاروق (چیئرمین شعبہ علومِ اسلامیہ)، محترم پروفیسر عبد الماجد صاحب، پروفیسر میڈم الماس شمس صاحبہ، پروفیسر میڈم رابعہ رشید صاحبہ، اور پروفیسر میڈم سمیرا ایوب صاحبہ کا میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔

       ساتھ ہی، میں پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم صاحب (پرنسپل گورنمنٹ گریجوایٹ کالج بوریوالا) کی بھی شکر گزار ہوں، جن کی اعلیٰ علمی اور تکنیکی صلاحیتوں نے اس تحقیقی کام میں بھرپور معاونت فرمائی۔

       میں اپنے والدین کی دعاؤں کو اپنی زندگی کا قیمتی اثاثہ سمجھتی ہوں، اور اس تحقیقی کام میں سرخروئی انہی کی دعاؤں اور خواہشات کی مرہونِ منت ہے۔ اللہ پاک مجھے والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

       آخر میں، انتہائی عاجزی اور انکساری سے ربِ ذو الجلال کے حضور سجدۂ شکر بجا لاتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ وہ اس تحقیقی کاوش کو قبول فرمائے اور اسے تمام انسانوں کے لیے مفید بنائے، آمین۔

مریم فقیر



مقدمہ

       پاکستان کی دیہی خواتین ملکی معیشت، زراعت، گھریلو صنعت اور خاندانی نظام میں ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ تاہم، انہیں تعلیمی، صحت، سماجی اور ثقافتی رکاوٹوں کا سامنا ہے، جو ان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس تحقیق میں ان مسائل کا تجزیہ کیا جائے گا اور ان کے ممکنہ حل پیش کیے جائیں گے تاکہ دیہی خواتین کو زیادہ خودمختار اور خوشحال بنایا جا سکے۔

       دیہی خواتین پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ کھیتوں میں کام کرنے، جانور پالنی، دستکاری میں مہارت حاصل کرنے اور گھریلو امور سرانجام دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی محنت و مشقت کے باوجود انہیں مناسب اجرت بنیادی حقوق اور بہتر مواقع میسر نہیں آتے۔

       دیہی خواتین کے مسائل صرف اقتصادی نہیں بلکہ سماجی، ثقافتی اور تعلیمی رکاوٹیں بھی ان کے لیے ترقی کے دروازے بند کر دیتی ہیں۔ زیادہ تر دیہی خواتین کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع نہیں ملتے، اور وہ مردوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔

       پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں مختلف سماجی اقتصادی اور ثقافتی مسائل نے ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رکھی ہیں۔ ان مسائل میں سب سے اہم مسئلہ خواتین خصوصاً دیہی خواتین کے ساتھ ہونے والی نا انصافی اور انہیں درپیش مشکلات ہیں۔ دیہی خواتین ملک کی معیشت میں ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن انہیں اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔

       پاکستان کی مجموعی آبادی کا ایک بڑا حصہ دیہی علاقوں میں مقیم ہے، جہاں خواتین کا کردار گھریلو کام کاج ،زراعت، مویشی پالنی اور دیگر ہنر مند کاموں میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود وہ تعلیم، صحت اور معاشی ترقی کے حوالے سے متعدد رکاوٹوں کا سامنا کرتی ہیں۔

موضوع کی ضرورت و اہمیت

       دیہی خواتین کا کردار پاکستان کی معیشت اور سماجی ترقی میں نہایت اہم ہے، مگر وہ کئی چیلنجز سے دوچار ہیں۔ یہ تحقیق ان خواتین کو درپیش سماجی، تعلیمی، صحت اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کرے گی اور ان کے حل کے لیے تجاویز فراہم کرے گی۔ اس تحقیق کی ضرورت درج ذیل نکات کی وجہ سے ہے:

1. تعلیمی پسماندگی – دیہی خواتین میں تعلیم کی شرح کم ہے، جس کی وجوہات کو سمجھنا ضروری ہے۔

2. صحت کے مسائل – بنیادی صحت کی سہولیات تک محدود رسائی خواتین اور بچوں کی زندگی پر منفی اثر ڈالتی ہے۔

3. ثقافتی رکاوٹیں – قدامت پسند رسم و رواج خواتین کے حقوق کو محدود کرتے ہیں۔

4. معاشی خودمختاری کا فقدان – خواتین کی اقتصادی ترقی کے مواقع محدود ہیں۔

5. قانونی تحفظ کی کمی – خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مؤثر قانون سازی اور عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

       یہ تحقیق پالیسی سازوں، سماجی کارکنوں اور تعلیمی اداروں کے لیے ایک راہنما ثابت ہو سکتی ہے تاکہ دیہی خواتین کے مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔

مسئلہ تحقیق

       پاکستان میں دیہی خواتین کو متعدد سماجی، ثقافتی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے، جن میں تعلیم کی کمی، صحت کے بنیادی مسائل، گھریلو اور سماجی تشدد، رسم و رواج کا دباؤ، اور معاشی مواقع کی کمی شامل ہیں۔ یہ مسائل خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہیں اور انہیں ایک بہتر زندگی گزارنے سے روکتے ہیں۔

یہ تحقیق درج ذیل بنیادی سوالات کا جواب دینے کی کوشش کرے گی:

1.  دیہی خواتین کو کن بنیادی سماجی اور ثقافتی رکاوٹوں کا سامنا ہے؟

2.  دیہی خواتین کی تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کیا چیلنجز درپیش ہیں؟

3.  رسم و رواج کس طرح دیہی خواتین کی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں؟

4.  حکومتی اور غیر سرکاری ادارے دیہی خواتین کی ترقی کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟

5.  دیہی خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کیا ممکنہ حل اور تجاویز دی جا سکتی ہیں؟

مقاصد تحقیق

       یہ تحقیق درج ذیل مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کی جا رہی ہے:

1.  دیہی خواتین کے تعلیمی، صحت، اور سماجی مسائل کی نشاندہی کرنا۔

2.  دیہی علاقوں میں خواتین کو درپیش معاشی چیلنجز اور مواقع کا تجزیہ کرنا۔

3.  خواتین کے حقوق کے خلاف قائم رسم و رواج اور ثقافتی رکاوٹوں کا جائزہ لینا۔

4.  حکومتی پالیسیوں، ترقیاتی پروگرامز اور ان کے اثرات کا تجزیہ کرنا۔

5.  دیہی خواتین کے مسائل کے حل کے لیے تجاویز اور سفارشات پیش کرنا۔

فرضیہ تحقیق

       یہ تحقیق درج ذیل مفروضات کی بنیاد پر کی جا رہی ہے:

1.  پاکستان میں دیہی خواتین کو شہری خواتین کے مقابلے میں زیادہ سماجی اور ثقافتی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

2.  تعلیمی مواقع کی کمی دیہی خواتین کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔

3.  صحت کی بنیادی سہولیات تک محدود رسائی زچگی اور دیگر بیماریوں میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔

4.  ثقافتی دباؤ اور روایتی رسم و رواج خواتین کے معاشرتی اور معاشی استحکام میں رکاوٹ ہیں۔

5.  حکومتی پالیسیوں اور ترقیاتی پروگرامز میں دیہی خواتین کے مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

موضوع پر ہونے والے سابقہ تحقیقی کام کا جائزہ

       پاکستان میں دیہی خواتین سے متعلق متعدد تحقیقی کام ہو چکے ہیں، جن میں ان کی تعلیم، صحت، اور معاشی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کچھ نمایاں تحقیقی کام درج ذیل ہیں:

1. دیہی خواتین اور تعلیم

1.  کئی مطالعات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے مواقع محدود ہیں۔

2.  تعلیمی انفراسٹرکچر کی کمی، والدین کی روایتی سوچ، اور مالی مشکلات تعلیمی رکاوٹوں کا سبب بنتی ہیں۔

2. صحت اور بنیادی سہولیات

1.  صحت عامہ پر ہونے والی تحقیقات میں یہ ثابت ہوا ہے کہ دیہی خواتین کو صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں، جس سے زچگی کے دوران اموات کی شرح زیادہ ہے۔

2.  غذائیت کی کمی، صحت سے متعلق غلط تصورات، اور علاج تک رسائی کے مسائل بھی نمایاں ہیں۔

3. معاشی خودمختاری

3.  تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دیہی خواتین زراعت، دستکاری، اور گھریلو صنعتوں میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں، مگر انہیں مناسب اجرت اور قانونی تحفظ حاصل نہیں۔

4.  مائیکرو فنانس اور خود روزگاری کے مواقع دیہی خواتین کو معاشی طور پر خودمختار بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

4. سماجی و ثقافتی دباؤ

5.  ونی، کاری، اور غیرت کے نام پر قتل جیسے مسائل پر تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ان سماجی برائیوں کا خاتمہ ضروری ہے۔

6.  دیہی خواتین کو خودمختاری دینے کے لیے تعلیمی اور قانونی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

5. حکومتی اقدامات اور ترقیاتی منصوبے

7.  مختلف تحقیقی کاموں میں حکومتی پالیسیوں اور این جی اوز کے ترقیاتی منصوبوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے، مگر عمل درآمد میں کئی چیلنجز درپیش ہیں۔

8.  تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ شعور و آگاہی مہمات دیہی خواتین کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

اسلوب تحقیق

1.  مقالہ میں فصول کے آخر میں مصادر و مراجع لانے کی بجائے فٹ نوٹ میں حوالہ جات ذکر کیے گئے ہیں۔

2.  کتب کا حوالہ دیتے وقت پہلے مصنف کا مشہور نام، پھر کتاب کا نام ، ناشر ، اور سن اشاعت بعد ازان جلد نمبر (اگر ہے تو) اور پھر صفحہ نمبر درج کیا گیا ہے۔

3.  کسی کتاب کا پہلی دفعہ ذکر آنے پر مکمل حوالہ دیا گیا جب کہ وہی حوالہ دوبارہ آنے پر مصنف اور کتاب کے نام کے ساتھ جلد و صفحہ نمبر درج ہے۔

4.  آیت کا حوالہ ایک جگہ اگر دو مر تبہ درج ہے تو " ایضا" کے ساتھ صفحہ نمبر درج کیا گیا ہے۔

       مقالہ کے آخر میں مصادر مراجع کی فہرست حروف تہجی کے اعتبار سے دی گئی ہے اس کے علاوہ اردو کتب ، لغات و معاجم ، ڈکشنری اور ویب سائٹ کے اعتبار کے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔

اللہ رب العزت کی رحمت اور مقالہ نگر ان کی رہنمائی میں اس مقالہ کو بہترین انداز میں لکھنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔ اس میں جو غلطیوں کا امکان ہے اور جو کمی پیشی اور بھول چوک ہے وہ میرے کم فہم ہونے کی بنا پر ہے چونکہ یہ میری پہلی تحریری کاوش ہے اس لیے ملتمس ہوں کہ خامیوں سے درگزر کیا جائے۔

       اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ وہ اس محنت کو قبول فرمائے اور مجھے مزید صلاحیت سے نوازے ( آمین (

فہرست عنوانات

مقدمہ XIII

باب اول:پاکستان کے دیہی خواتین کے سماجی مسائل. 1

فصل اول:دیہی خواتین کا تعارف.. 2

تعلیم کی کمی : 2

صحت کے مسائل: 2

معاشی مواقع کی کمی: 2

سماجی دباؤ اور تشدد: 3

ثقافتی پابندیاں : 4

رسم و رواج روایات: 4

تعلیم اور شعور کی کمی : 5

اعداد و شمار : 5

غیر ادا شدہ محنت.. 5

زمین کی ملکیت کا فقدان. 5

ماحولیاتی اور جغرافیاتی اثرات.. 6

فصل دوم:پاکستان میں دیہی خواتین کا معاشرتی اور اقتصادی کردار. 8

دیہی خواتین کا معاشرتی کردار. 8

زراعت میں کردار. 9

سماجی ذمہ داریاں. 9

تعلیمی اور صحت کے مسائل. 9

خاندانی نظام کی مضبوطی. 10

مشکلات اور چیلنجز. 10

چیلنجز. 15

سفارشات.. 16

علاقائی تقسیم کے مطابق خواتین کی شراکت.. 17

حکومتی اور غیر حکومتی کوششیں. 18

فصل سوم:دیہی خواتین کی زندگی کے عمومی حالات اور طرز زندگی. 20

دیہی خواتین کی زندگی کے عمومی حالات.. 20

ماحولیاتی چیلنجز. 21

تعلیمی مواقع میں اضافہ 23

ماحولیاتی تحفظ اور خواتین کی شمولیت.. 24

دیہی خواتین کے لیے کھیلوں کی سرگرمیاں. 26

ثقافتی ترقی اور آرٹس کی ترویج. 26

موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی تربیت.. 26

دیہی خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت.. 26

زچگی اور بچوں کی دیکھ بھال کی سہولیات.. 27

باب دوم:دیہی خواتین کےسماجی  اور ثقافتی رکاٹیں. 30

فصل اول:دیہی خواتین کے تعلیمی مسائل. 31

دیہی خواتین کے روایتی اور ثقافتی رکاوٹیں. 32

1. رسم و رواج اور پدرشاہی نظام 32

2. تعلیم کی کمی. 33

3. معاشی رکاوٹیں اور مالی خودمختاری کی کمی. 33

4. سماجی دباؤ اور شادی کے مسائل. 34

5. صحت اور تولیدی مسائل. 34

6. قانونی اور سیاسی رکاوٹیں. 34

فصل دوم:صحت کے مسائل. 36

دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کا فقدان. 38

1۔تعارف.. 38

2۔صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے بنیادی اسباب.. 38

3۔ صحت کے مسائل اور ان کے اثرات.. 39

فصل سوم:رسم و رواج کا دباؤ. 41

دیہی خواتین پر رسم و رواج کے دباؤ کی اقسام 42

فرسودہ روایات اور خواتین کی آزادی پر فدغن. 44

جدید دور میں خواتین کی آزادی کی تحریکیں. 45

کم عمری کی شادی اور جہیز کے سماجی نفسیاتی اور معاشی اثرات.. 50

سماجی اثرات.. 51

نفسیاتی اثرات.. 52

معاشی اثرات. 52

باب سوم:مسائل کے حل او شفارشات. 56

فصل اول:حکومتی  اقدامات اور پالیسیاں. 57

دیہی خواتین کے حکومتی اقدامات اور پالیسیاں: قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلی جائزہ 60

1. دیہی خواتین کے بنیادی حقوق اور حکومتی پالیسیاں: قرآنی نقطہ نظر. 60

2. دیہی خواتین کے قانونی حقوق اور حکومتی پالیسیاں. 62

3. دیہی خواتین کے سماجی حقوق اور حکومتی اقدامات.. 63

دیہی خواتین کے حکومتی اقدامات اور پالیسیاں: اسلامی نقطہ نظر. 63

1. خواتین کے حقوق اور حکومتی پالیسیاں: قرآنی تعلیمات.. 64

2. دیہی خواتین کی معاشی خود مختاری: حدیث کی روشنی میں. 64

3. خواتین کے سماجی تحفظ کے اسلامی اصول. 65

فصل دوم:دیہی ترقیاتی پروگرامز. 67

1. تعلیم اور خواندگی کے فروغ کے پروگرام 70

2. معاشی خودمختاری کے پروگرام 70

3. صحت کے شعبے میں ترقیاتی پروگرام 71

4. خواتین کے قانونی حقوق کے فروغ کے پروگرام 71

دیہی خواتین کی زندگی کو بہتر بنانے کے ترقیاتی پروگرام 72

1. معاشی بااختیاریت کے پروگرام 72

2. تعلیمی ترقی کے پروگرام 73

3. صحت اور ماں و بچے کی فلاح و بہبود 73

4. قانونی حقوق اور خواتین کا تحفظ. 74

5. سماجی ترقی اور ثقافتی بحالی کے اقدامات.. 74

فصل سوم:شعور اور آگاہی. 76

دیہی خواتین میں عوامی شعور بیدار کرنے کی اہمیت.. 76

دیہی خواتین کی آگاہی مہمات میں میڈیا، غیر سرکاری تنظیموں اور تعلیمی اداروں کا کردار. 81

دیہی خواتین میں آگاہی مہمات کی کامیابی کے عوامل اور چیلنجز. 87

ملخص مقالہ 91

نتائج  البحث. 92

سفارشات. 94

مصادر و مراجع. 96

  

باب اول:پاکستان کے دیہی خواتین کے سماجی مسائل

فصل اول: دیہی خواتین کا تعارف

فصل دوم:پاکستان میں دیہی خواتین کا معاشرتی اور اقتصادی کردار

فصل سوم:دیہی خواتین کی زندگی کے عمومی حالات اور طرز زندگی

  

فصل اول:دیہی خواتین کا تعارف

       پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ جہاں کی معیشت بڑی حد تک زراعت پر انحصار کرتی ہے ۔دیہی علاقوں میں خواتین کا کردار زراعت ،مویشی بانی اور گھریلو کاموں میں کلیدی ہے۔ لیکن ان کی سماجی حیثیت اکثر محدود اور کمزور رہتی ہے ۔اس عدم مساوات کی وجوہات میں روایتی رسوم و رواج تعلیم کی کمی اور غربت شامل ہیں۔

تعلیم کی کمی :

       دیہی علاقوں میں خواتین کی تعلیمی شرح انتہائی کم ہے۔ اسکولوں کی کمی ،بدر شاہی سوچ اور غربت ان کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ والدین عموماً بیٹیوں کی تعلیم کو غیر ضروری سمجھتے ہیں ،خاص طور پر جب گھر کے کام اور شادی کو ان کی زندگی کا واحد مقصد تصور کیا جاتا ہے۔ عالمی بینک کی ایکرپورٹ کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی اسکول سے باہر رہنے کی شرح تقریباً 32٪ ہے۔    [1]

صحت کے مسائل:

       دیہی علاقوں میں صحت کی بنیادی سہولیات کی کمی خواتین کو شدید مشکلات کا شکار بناتی ہے۔ خاص طور پر زچگی کے دوران مناسب طبی دیکھ بھال کا فقدان ماں اور بچے کی صحت کے لیے خطرہ ہے۔ پاکستان ڈیموگرافک ہیلتھ سروے کے مطابق،دیہی علاقوں میں 48 فیصد زچگیاں گھروں میں بغیر کسی تربیت یافتہ عملے کی مدد سے ہوتی ہے۔   [2]

معاشی مواقع کی کمی:

       دیہی خواتین کا بڑا حصہ زراعت اور مویشی بانی کے شعبوں میں کام کرتا ہے ۔لیکن انہیں مالی فوائد اور حقوق حاصل نہیں ہوتے۔ زیادہ تر خواتین کو اپنی محنت کا صلہ مرد سربراہان کے ذریعے ملتا ہے اور زمین کی ملکیت میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ایک مطالعے کے مطابق پاکستان میں صرف تین ٪ خواتین کے پاس زمین کی ملکیت ہے۔    [3]

سماجی دباؤ اور تشدد:

       دیہی علاقوں میں خواتین کو ثقافتی اور سماجی دباؤ کا سامنا ہے۔ جن میں جبری شادیاں، غیرت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد شامل ہیں ۔غیرت کے نام پر قتل کے واقعات دیہی معاشروں میں زیادہ عام ہے۔ جہاں خواتین کے فیصلے خاندان کی عزت سے جوڑے جاتے ہیں۔    [4]

سیاسی اور سماجی شرکت میں کمی:

       دیہی خواتین کی سیاسی اور سماجی شرکت انتہائی محدود ہے ۔انہیں اکثر فیصلے کرنے کے عمل سے دور رکھا جاتا ہے چاہے وہ خاندانی سطح پر ہوں یا حکومتی سطح پر۔ ایک تحقیق کے مطابق دیہی علاقوں میں صرف دو ٪ خواتین سیاسی طور پر فعال ہیں ۔ [5]

       دیہی پاکستان کی خواتین کو درپیش مسائل کو سمجھنے کے لیے ان کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے ۔دیہی علاقوں میں خواتین کی اکثریت تعلیم سے محروم ہے اور ان کی آزادی محدود ہے ۔قبائلی جاگیردارانہ اور بدر شاہی نظام دیہی سماج میں غالب ہیں ۔جو خواتین کے حقوق کو دبانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ثقافتی پابندیاں :

       دیہی خواتین کو روایتی رسوم و رواج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جیسے کہ شادی کے فیصلے میں ان کی رائے کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے اور پردے کی سخت پابندی ۔یہ خواتین کی سماجی شرکت اور خود مختاری کو محدود کرتا ہے۔[6]

سماجی اور ثقافتی ڈھانچہ :

       دیہی خواتین ایک بدر شاہی معاشرے میں رہتی ہیں۔ جہاں مردوں کو زیادہ طاقت اور اختیار حاصل ہے۔ خاندانی نظام مشترکہ ہے ۔اور خواتین کو عموماً فیصلہ سازی کے عمل سے دور رکھا جاتا ہے۔ شادی کے بعد خواتین کا کردار صرف گھریلو کام اور بچوں کی پرورش تک محدود رہتا ہے۔

رسم و رواج روایات:

       دیہی خواتین کو اکثر رسم و رواج کا پابند بنایا جاتا ہے۔ جیسے پردہ کرنا ان کے لیے سماجی سرگرمیوں میں شرکت محدود ہوتی ہے۔ ان کی تعلیم اور پیشہ ورانہ ترقی کو اکثر غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ [7]

غیرت کے معاملات :

       غیرت کے نام پر قتل ،جبری شادیاں اور دیگر ظالمانہ روایات دیہی خواتین کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہیں۔ [8]

تعلیم اور شعور کی کمی :

       دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے لیے تعلیمی ادارے کم ہیں ۔اور جو موجود ہیں وہ اکثر مناسب سہولیات سے محروم ہیں۔ خاندان کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم کو غیر ضروری سمجھنا ،کم عمری کی شادیاں اور منفی امتیاز اور ان کی تعلیمی مواقع کو محدود کرتے ہیں ۔

اعداد و شمار :

       پاکستان میں دیہی علاقوں کی لڑکیوں کی تعلیمی شرح شہری علاقوں کے مقابلے میں تقریباً نصف ہے ۔[9]

       یہ فرق نہ صرف تعلیمی اداروں کی کمی بلکہ والدین کی ترجیحات کے باعث بھی ہے۔ جہاں لڑکیوں کو گھریلو کاموں میں شامل کیا جاتا ہے۔

معاشی حیثیت

       دیہی خواتین ذراعت اور مویشی بانی کے شعبے میں بہت زیادہ محنت کرتی ہیں۔ لیکن انہیں مالی طور پر خود مختاری حاصل نہیں ہوتی۔

غیر ادا شدہ محنت

       زیادہ تر خواتین اپنی فیملی کی زمین پر کام کرتی ہیں ۔لیکن اس کام کے بدلے انہیں اجرت یا مالی حقوق نہیں ملتے۔

زمین کی ملکیت کا فقدان

       دیہی معاشروں میں خواتین کے پاس زمین یا جائیداد کی ملکیت نہ ہونے کے برابر ہے۔  [10]

صحت کی سہولیات کی کمی

       دیہی خواتین صحت کے مسائل سے بری طرح متاثر ہوتی ہیں ۔خاص طور پر زچگی کے دوران مناسب طبی سہولیات اور تربیت یافتہ عملے کی کمی ان کے لیے صحت کی پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں۔

زچگی اور بچوں کی صحت

       دیہی علاقوں میں بچوں کی شرح اموات اور ماں کی صحت کے مسائل بہت زیادہ ہیں کیونکہ ان علاقوں میں اسپتالوں اور کلینکس کی کمی ہے۔ [11]

ماحولیاتی اور جغرافیاتی اثرات

       دیہی علاقوں میں خواتین کو اکثر صحت جغرافیاتی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے پانی کی قلت ،قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر یہ مسائل ان کی روزمرہ کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔

پانی لانے کا بوجھ

       دیہی علاقوں میں خواتین کو اکثر دور دراز سے پانی لانا پڑتا ہے۔ جس سے ان کی صحت اور وقت متاثر ہوتا ہے۔

سیاسی اور قانونی حقوق

       دیہی خواتین کی اکثریت اپنےسیاسی اور قانونی حقوق سے بے خبر ہوتی ہے۔ قانونی اور عدالتی نظام تک ان کی رسائی محدود ہے اور وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے مردوں پر انحصار کرتی ہیں۔

انتخابی شرکت

       دیہی خواتین کا ووٹ ڈالنے یا سیاسی عمل میں حصہ لینے کا تناسب کم ہے۔ ان کے سیاسی حقوق اکثر خاندان یا برادری کے سربراہان کے زیر اثر رہتے ہیں۔پس منظر دیہی خواتین کی زندگی کے مسائل کی گہرائی کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور ان کی سماجی اور معاشی حالات کو بہتر بناتا ہے۔ [12]

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

فصل دوم:پاکستان میں دیہی خواتین کا معاشرتی اور اقتصادی کردار

دیہی خواتین کا معاشرتی کردار

       پاکستان کی دیہی خواتین معاشرتی اقتصادی اور ثقافتی زندگی میں ایک مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ اگرچہ ان کا کردار اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے ۔لیکن یہ خواتین زراعت، گھریلو صنعت اور خاندانی نظام کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔  ان کے روز مرہ کے کام اور روایتی ذمہ داریاں انہیں پاکستان کے دیہی معاشرتی ڈھانچے کا ایک لازمی جزو بناتی ہیں۔

·     زراعت میں کردار

·     سماجی ذمہ داریاں

·     سیاسی شراکت

·     قدرتی وسائل کا تحفظ

·     خواتین کی ترقی کے مواقع

·     منفی مساوات کی جدوجہد

·     ماں اور بچوں کی فلاح

·     گھریلو صنعت اور معشیت

·     تعلیمی اور صحت کے مسائل

·     خاندانی نظام کی مضبوطی

·     مشکلات اور چیلنجز

·     خواتین کی آواز

·     خواتین کا قیادت میں کردار

·     دیہی خواتین اور میڈیا

زراعت میں کردار

       دیہی خواتین زراعت کے میدان میں نمایاں حصہ لیتی ہیں۔ وہ کھیتوں میں بیج بونے، فصل کاٹنے اور مویشی پالنے جیسے کاموں میں مصروف رہتی ہیں۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی زراعت میں 70 فیصد کام خواتین کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔ لیکن ان کا کام اکثر غیر رسمی اور غیر تسلیم شدہ ہوتا ہے۔[13]

گھریلو صنعت  اور معشیت

       دیہی خواتین گھریلو سنتوں جیسے دستکاری، کڑھائی اور دیگر مصنوعات کی تیاری میں مہارت رکھتی ہیں۔ یہ سرگرمیاں نہ صرف ان خاندانوں کی آمدنی میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ مقامی معشیت کو بھی تکلیف دیتی ہیں۔[14]

سماجی ذمہ داریاں

       دیہی خواتین اپنی برادریوں کے اندر روایتی اور ثقافتی تقریبات میں فعال کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ شادی بیاہ، مذہبی تقریبات اور دیگر معاشی مواقع پر سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہیں۔[15]

تعلیمی اور صحت کے مسائل

       تعلیم اور صحت کے مسائل دیہی خواتین کی زندگی پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں زیادہ تر دیہی خواتین تعلیمی سہولیات تک رسائی سے محروم رہتی ہیں جس کے باعث ان کی سماجی ترقی محدود رہتی ہے۔[16]

سیاسی شراکت

       پاکستان میں دیہی خواتین کا سیاسی کردار بتدریج بڑھ رہا ہے ۔وہ مقامی حکومتوں اور کمیونٹی تنظیموں میں شمولیت اختیار کر رہی ہیں۔ لیکن ان کی نمائندگی ابھی بھی محدود ہے ۔[17]

خاندانی نظام کی مضبوطی

       پاکستان میں دیہی خواتین خاندانی نظام کو مستحکم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ بچوں کی پرورش ،گھریلو امور کی دیکھ بھال اور بزرگوں کی دیکھ بھال جیسی ذمہ داریاں نبھاتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین اکثر خاندان کی اخلاقی اقدار اور روایات کو برقرار رکھنے کے ضامن ہوتی ہیں۔ جو معاشرتی ہم آہنگی کے لیے اہم ہیں۔[18]

قدرتی وسائل کا تحفظ

       دیہی خواتین قدرتی وسائل کے انتظام میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ پانی ،ایندھن اور خوراک  کی فراہمی میں مہارت رکھتی ہیں اور ان وسائل کو بچانے کے لیے مقامی روایات پر عمل کرتی ہیں۔ خواتین کی یہ ذمہ داریاں ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی اہم ہے ۔خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں قدرتی وسائل محدود ہیں۔[19]

مشکلات اور چیلنجز

       دیہی خواتین مختلف سماجی اقتصادی اور ثقافتی چیلنجز کا سامنا کرتی ہیں جن میں شامل ہیں۔

 

تعلیم کی کمی

       دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے خواتین کی ترقی محدود ہوتی ہے۔[20]

صحت کی سہولیات کی کمی

       خواتین کی صحت کی بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ جس سے ماں اور بچے کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ [21]

معاشی ناہمواری

       دیہی خواتین کو مساوی معاوضہ نہیں ملتا اور ان کا کام اکثر غیر تسلیم شدہ رہتا ہے ۔[22]

ثقافتی پابندیاں

       روایتی رسم و رواج بعض اوقات خواتین کی آزادی کو محدود کرتے ہیں۔ خاص طور پر تعلیم اور ملازمت کے مواقع کے حوالے سے ۔[23]

خواتین کی ترقی کے مواقع

       پاکستان میں دیہی خواتین کی زندگی بہتر بنانے کے لیے مختلف حکومتی اورغیر حکومتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ان اقدامات میں شامل ہیں۔

تعلیمی پروگرام

       حکومت اور این جی او کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم کے  فروغ کے لیے اسکالرشپ اور اسکول قائم کیے جا رہے ہیں۔ [24]

خواتین کے لیے چھوٹے قرضے

       خواتین کو معاشی خود مختاری دینے کے لیے چھوٹے کاروباری قرضے دیے جا رہے ہیں۔[25]

ہنر مندی کی تربیت

       دستکاری ،سلائی اور دیگر ہنر سکھانے کے مراکز کا قیام کیا جا رہا ہے تاکہ خواتین اپنی آمدنی بڑھا سکیں۔[26]

خواتین کی آواز

       دیہی خواتین اپنی آواز بلند کرنے کے لیے مختلف پلیٹ فارمز استعمال کر رہی ہیں۔ کمیونٹی تنظیمیں اور خواتین کے حقوق کی تنظیمیں دیہی خواتین کو اپنے مسائل پر بات کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ [27]

منفی مساوات کی جدوجہد

       دیہی خواتین کو اپنے حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کا سامنا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں کئی سماجی اور ثقافتی پابندیوں کا شکار رہتی ہیں۔ جن میں تعلیم ،ملازمت اور فیصلہ سازی میں حدود شمولیت شامل ہے۔ ان مشکلات کے باوجود وہ اپنی برادری میں منفی مساوات کے فروغ کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ہیں۔ [28]

خواتین کا قیادت میں کردار

       پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواتین مقامی قیادت میں بھی قدم رکھ رہی ہیں۔ یونین کونسلیں اور دیہی کمیٹیوں میں خواتین کی شمولیت ان کے حقوق کی نمائندگی کا ایک اہم ذریعہ بن رہی ہیں ۔ان خواتین لیڈرز کے ذریعے دیگر خواتین کو بھی اپنےمسائل حل کرنے کا حوصلہ ملتا ہے ۔[29]

ماں اور بچوں کی فلاح

       دیہی خواتین خاص طور پر مائیں اور بچوں کی صحت ،تعلیم تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو ہی اخلاقی اور سماجی اقدار سکھانے کے ساتھ ساتھ انہیں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہیں ۔ماں کے اس کردار کو اکثر خاندان کی بنیاد کہا جاتا ہے۔ [30]

ثقافتی  سرگرمیوں میں شمولیت

       دیہی خواتین مقامی ثقافت اور روایات کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔وہ لوگ گیت، گانے، روایتی لباس تیار کرنے اور تہواروں کو منانے میں سرگرم ہوتی ہیں۔ ان کے لیے یہ سرگرمیاں نہ صرف ثقافت کی حفاظت کرتی ہیں بلکہ کمیونٹی کو متحد بھی کرتی ہیں۔[31]

دیہی خواتین اور میڈیا

       میڈیا اب دیہی خواتین کی آواز بن رہا ہے۔ کئی پروگرام اور ڈاکیومنٹریز دیہی خواتین کے مسائل کو اجاگر کر رہی ہیں ۔جس سے ان کے حقوق کے حوالے سے آگاہی بڑھ رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دیہی خواتین اپنی کہانی دنیا تک پہنچا رہی ہیں۔ [32]

پاکستان میں دیہی خواتین کا اقتصادی کردار

       پاکستان کی دیہی خواتین ذراعت ،دستکاری اور خاندانی معاشیت میں ہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان کا کردار درج شعبوں میں نمایاں ہے۔

زراعت میں شراکت

       پاکستان کی ذاتی معیشت میں خواتین کا حصہ تقریبا 74 فیصد ہے۔ جس میں وہ فصلوں کی کاشت ،پانی لگانے کاٹ ڈالنے،فصلوں کی کٹائی جیسے کام انجام دیتی ہیں۔ [33]

لائیو سٹاک کی دیکھ بھال

       خواتین مویشی پالنے اور دودھ کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین دودھ کے کاروبار کا تقریباً 60 فیصد حصہ سنبھالتی ہیں۔[34]

گھریلو دستکاری اور ہنر:

       دیہی خواتین کشیدہ کاری، کالین بانی اور دیگر ہنر مند صنعتوں میں سرگرم ہیں۔ جو مقامی اور بین الاقوامی منڈیوں کے لیے مصنوعات تیار کرتی ہیں۔ یہ کام ان کی اضافی آمدنی کا ذریعہ ہے۔[35]

غیر رسمی معشیت میں کردار

       دیہی خواتین اکثر غیر رسمی معشیت میں کام کرتی ہیں۔ جس میں وہ کھیت، مزدوروں ،گھریلو دستکاروں یا چھوٹے کارخانوں میں خدمات انجام دیتی ہیں۔

شماریاتی جائزہ

·     پاکستان کے دیہی علاقوں میں تقریبا 65 فیصد خواتین زراعت سے وابستہ ہیں۔ (2022 PBS)

·     48 فیصد دیہی خواتین لائیو سٹاک کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔ جو ملکی معشیت میں دودھ اور گوشت کے شعبے کو سہارا دیتی ہیں۔ (FAO 2021)  

·     پاکستان کی کل خواتین ورک فورس میں دیہی خواتین کا حصہ تقریبا 40 فیصد ہے۔ (2020 ILO)

چیلنجز

       دیہی خواتین کو درج ذیل چیلنجز کا سامنا ہے۔

1۔تعلیمی مواقع کی کمی

       دیہی علاقوں میں خواندگی کی شرح 30 فیصد سے کم ہے۔[36]

2۔معاشی وسائل تک رسائی

       خواتین کو قرضوں اور مالیاتی خدمات تک محدود رسائی حاصل ہے۔

3۔سماجی پابندیاں

       دیہی خواتین کو بدر شاہی نظام اور روایتی سوچ کی وجہ سے ترقی کے مواقع محدود رہتے ہیں۔

سفارشات

1۔تعلیم و تربیت

       دیہی خواتین کے لیے خصوصی تعلیمی اور فنی تربیتی پروگرامز کا آغاز کیا جائے۔

1۔مالیاتی شمولیت

       خواتین کو چھوٹے قرضے اور کاروباری مواقع فراہم کیے جائیں۔

2۔قانونی حقوق کا تحفظ

       خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

دیہی خواتین کا معشیت میں مرکزی کردار

گھریلو معشیت میں شراکت

       دیہی خواتین خاندانی سطح پر معشیت کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ کردار خاص طور پر درج زیل سرگرمیوں پر مشتمل ہے۔

خوراک کی تیاری اور ذخیرہ

       دیہی خواتین کھانے کی تیاری اناج ذخیرہ کرنے اور گھریلوکھیت کے لیے دیگر اشیاء محفوظ رکھنے میں مہارت رکھتی ہیں ۔

بچوں کی پرورش اور تعلیم

       دیہی خواتین بچوں کی بنیادی تعلیم اور صحت کے انتظام کی ذمہ داری اٹھاتی ہیں۔ جو کہ انسانی وسائل کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

گھریلو مصنوعات کی تیاری

       مکھن ،دہی اور دیگر دیسی مصنوعات بنانے میں خواتین اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جنہیں مقامی منڈیوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔

ماحولیاتی تحفظ اور پائیداری

       دیہی خواتین ماحول درست  طرزِ زندگی اپنانے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔وہ بگڑی، گوبر اور دیگر قدرتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے توانائی اور ہاتھ کے متبادل ذرائع پیدا کرتی ہیں۔[37]

ریاستی اورغیر ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون

       دیہی خواتین اکثر ترقیاتی منصوبوں اور این جی اوز کے پروگرامز اور حکومت کی فلاحی اسکیم کا حصہ بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر بے نظی انکم سپورٹ پروگرام (BISP) میں خواتین کو براہ راست مالی امداد فراہم کی گئی۔ جس نے ان کی معشیتی خود مختاری میں اضافہ کیا[38]

علاقائی تقسیم کے مطابق خواتین کی شراکت

پنجاب

       پنجاب کی دیہی خواتین ذراعت اور لائیو سٹاک کے شعبے میں سرگرم ہیں۔ خاص طور پر گندم اور چاول کی کاشت میں پنجاب میں خواتین زراعت مزدوروں کا 70 فیصد حصہ تشکیل دیتی ہے۔ [39]

سندھ

       زندگی خواتین ہنر مند صنعتوں جیسے کہ کشیدہ کاری اور کچی مٹی کے برتن بنانے میں مہارت رکھتی ہیں۔ علاوہ ازیں سندھ کی خواتین مچھلی پکڑنے کی صنعت میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔

خیبر پختون خوا

       خیبر پختون خوا کی دیہی خواتین باغبانی شہد کی پیداوار اور دیگر زرعی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ خواتین خشک میوہ جات کی پروسیسنگ میں بھی سرگرم ہے۔

بلوچستان

       بلوچستان کی دیہی خواتین زیادہ تر مویشی پالنے، قالین سازی اور ان کی صنعت میں مصروف ہیں۔ اس خطے میں خواتین کے ذریعے اون کے قالین اور دیگر دستکاری موضوعات بین الاقوامی سطح پر مقبول ہیں۔

حکومتی اور غیر حکومتی کوششیں

حکومتی اقدامات

زرعی ترقیاتی منصوبے

       حکومت پاکستان نے دیہی خواتین کے لیے خصوصی زرعی تربیتی پروگرامز شروع کیے ہیں۔ تاکہ ان کی مہارت کو بہتر بنایا جا سکے ۔

مالیاتی اسکیمز

       خواتین کے لیے چھوٹے قرضے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ جیسے کہ پاکستان رورل سپورٹ پروگرام کے ذریعے۔

 

 

غیرحکومتی تنظیموں کے اقدامات

اکبر فاؤنڈیشن

       دیہی خواتین کو ہنر مند تربیت فراہم کرتی ہے۔

آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک

        دیہی علاقوں میں خواتین کی صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بہتری کے لیے کام کر رہی ہیں۔

اہم اعدادوشمار(2022)

·     دیہی خواتین کی گھریلو معشیت میں شراکت 80 فیصد(world Bank)ہے۔

·     دیہی خواتین کی غیر رسمی معشیت میں حصہ 58 فیصد (ILO)[40] 

·     زراعت میں خواتین کی شراکت کا حصہ 72 فیصد (FAO)

 

 

 

 

 

 

 

فصل سوم:دیہی خواتین کی زندگی کے عمومی حالات اور طرز زندگی

دیہی خواتین کی زندگی کے عمومی حالات

       دیہی خواتین کی زندگی اکثر سخت جسمانی مشقت، محدود وسائل اور سماجی پابندیوں سے عبارت ہوتی ہے۔ یہ خواتین زراعت ،مال ،مویشی پالنے اور گھریلو امور میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کے عمومی  حالات میں شامل ہیں۔

تعلیم کی کمی

       دیہی علاقوں میں خواتین کی تعلیمی سطح کم ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے سماجی اور معاشی رکاوٹیں ہیں۔

       مثال ”دیہی علاقوں میں خواتین کی تعلیم تک رسائی محدود ہوتی ہے جس سے ان کی معاشرتی ترقی متاثر ہوتی ہے۔[41]

صنعت کے مسائل

       صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی اور غذائی قلت خواتین کے عمومی صحت کے مسائل پیدا کرتی ہے۔

       مثال دیہی خواتین میں غذائی قلت کی شرح زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔[42]

معاشی حالات

       دیہی خواتین کو اکثر کم اجرت پر کام کرنا پڑتا ہے۔ اور انہیں زمین یا جائیداد کی ملکیت کے حق میں بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔

مثال پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواتین کی زمین کی ملکیت 2 فیصد سے کم ہے۔[43]

سماجی اور ثقافتی پابندیاں

       دیہی خواتین کو اکثر ثقافتی رسومات اور روایات کی وجہ سے محدود حقوق دیے جاتے ہیں۔ جن میں جائیداد کی ملکیت،آزادانہ نقل و حرکت اور تعلیم تک رسائی شامل ہے ۔

”مثال: دیہی علاقوں میں خواتین کی آزادی روایتی  سماجی ڈھانچوں میں مفید ہے۔ جو ان کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتی ہے۔[44]

گھریلو تشدد اور صنفی امتیاز

       دیہی علاقوں میں خواتین کو گھریلو تشدد اور صنفی امتیاز کا سامنا زیادہ ہوتا ہے۔ یہ رویے سماجی ساخت اور بدر شاہی نظام کے زیر اثر ہیں۔

مثال: دیہی خواتین میں گھریلو تشدد کی شرح شہری خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ جس کی بنیادی وجہ سماجی تحفظ کی کمی ہے۔[45]

ماحولیاتی چیلنجز

       ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات دیہی خواتین پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔کیونکہ وہ پانی ،ایندھن اور ذراعت کے لیے وسائل جمع کرنے میں زیادہ مشقت کرتی ہیں۔

مثال: ماحولیاتی تبدیلی دیہی خواتین کی روزمرہ کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ خاص طور پر خشک سالی کے علاقوں میں۔[46]

محدود سیاسی شراکت

       دیہی خواتین کو سیاسی عمل میں جو اپنے موقع کم فراہم کیے جاتے ہیں ۔مقامی حکومتوں میں خواتین کی موجودگی بہت کم ہوتی ہے حالانکہ وہ اپنے معاشرتی مسائل سے بخوبی واقف ہوتی ہیں۔

مثال: پاکستان میں دیہی خواتین کی مقامی حکومتوں میں شرکت صرف پانچ فیصد ہے جو صنفی مساوات کے لیے ایک چیلنج ہے۔

زراعت میں کردار

       دیہی خواتین ذراعت میں قلیدی کردار ادا کرتی ہے جیسے کہ کھیتی باڑی ،فصلوں کی کٹائی اور مالی مویشی دیکھ بھال تا ہم ان کا کام اکثر غیر رسمی یا غیر معاوضہ ہوتا ہے۔

مثال :پاکستان میں دیہی خواتین زراعت میں 70 فیصد مزدوری فراہم کرتی ہیں۔ لیکن ان کے کام تو رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔[47]

صحت اور غذائیت

       غذائی قلت اور صحت کی سہولتوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے دیہی خواتین کو صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ زچگی کے دوران اموات اور بیماریوں کی شرح زیادہ ہے۔

”مثال :دیہی علاقوں میں زچگی کے دوران اموات کی شرح شہری علاقوں کے مقابلے میں دگنی ہے۔[48]

معاشی استحصال

       دیہی خواتین کو غیر رسمی شعبوں میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔جہاں انہیں کم اجرت دی جاتی ہے۔زمین کی ملکیت کا حق بھی ان کے لیے ناپید ہے ۔

مثال: پاکستان میں دیہی خواتین کی زمین کی ملکیت کی شرح صرف 2 فیصد ہے۔ جو صنفی امتیاز کی عکاس ہے۔[49]

ماحولیاتی اثرات

        ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات دیہی خواتین پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ وہ پانی، ایندھن ،خوراک کے لیے وسائل جمع کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔

مثال: خشک سالی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دیہی خواتینوں کو روزمرہ کے وسائل حاصل کرنے میں مزید مشکلات پیش آتی ہیں۔[50]

دیہی خواتین کی طرز زندگی

تعلیمی مواقع میں اضافہ

       دیہی خواتین کے لیے غیر رسمی تعلیمی پروگرامز کا آغاز کیا جائے تاکہ وہ اپنی روزمرہ زندگی میں تعلیم کو بروئے کار لا سکیں۔[51]

معاشی خود مختاری

       مائیکرو فائنانس سیکھنے کے ذریعے خواتین کو مالی امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ چھوٹے کاروبار شروع کر سکے ۔[52]

صحت کی سہولیات

       دیہی علاقوں میں موبائل کلینک اور زچگی کی بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔[53]

جدید زراعت میں حصہ داری

       خواتین کسانوں کے لیے زرعی تربیتی پروگرامز اورآسان قرضوں کا بندوبست کیا جائے۔ [54]

کمیونٹی سینٹرز اور تربیتی پروگرامز

       دیہی خواتین کے لیے دستکاری سلائی اور دیگر ہنر سکھانے کے مراکز قائم کیے جائیں۔[55]

مواصلات اور شعور بیداری

       خواتین میں ڈیجیٹل خواندگی کے فروغ کے لیے موبائل ایپلیکیشنز اور تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے۔

قانونی تحفظ

       دیہی خواتین کے قانونی حقوق کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے مہمات چلائی جائے۔

ماحولیاتی تحفظ اور خواتین کی شمولیت

       دیہی خواتین کو ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات میں شامل کرنا اور انہیں پائیدار ،ترقی کے اصولوں کے بارے میں تعلیم دینا ضروری ہے۔[56]

پینے کے صاف پانی تک رسائی

       دیہی خواتین کی زندگی کو اسان بنانے کے لیے صاف پانی کے منصوبے قائم کیے جائیں تاکہ وہ پانی لانے میں وقت ضائع نہ کریں اور اسے دیگر پیداواریت کے کاموں میں لگائیں۔[57]

سماجی اور ثقافتی رکاوٹوں کا خاتمہ

       دیہی خواتین کی ترقی کی راہ میں حائل سماجی اور ثقافتی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مقامی کمیونٹیز میں آگاہی پیدا کی جائے۔[58]

خاندانی منصوبہ بندی کی تعلیم

       خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت وہ اجاگر کرنے کے لیے دیہی خواتین کو مناسب تعلیم دی جائے تاکہ وہ اپنے خاندان کی ضروریات اور وسائل میں توازن قائم کر سکیں۔[59]

مواصلاتی ذرائع کا استعمال

       ریڈیو ،ٹیلی ویژن اور دیگر مواصلاتی ذرائع کے ذریعے دیہی خواتین کو جدید معلومات اور مواقع تک رسائی فراہم کی جائے۔[60]

نوجوان لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ

       دیہی علاقوں میں نوجوان لڑکیوں کے لیے تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل میں ہی خود مختاری حاصل کر سکیں[61]

ٹیکنالوجی کے استعمال میں مہارت

       دیہی خواتین کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں تربیت دی جائے تاکہ وہ مختلف ان لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔

کوآپریٹو تنظیموں کا قیام

       دیہی خواتین کوآپریٹو تنظیموں میں شامل کر کے انہیں اجتماعی طور پر کام کرنے اور معاشی فوائد حاصل کرنے کی تربیت دی جائے۔[62]

دیہی خواتین کے لیے کھیلوں کی سرگرمیاں

       خواتین کی جسمانی اور ذہنی صحت کے فروغ کے لیے دیہی علاقوں میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو بڑھاوا دیا جائے۔[63]

ثقافتی ترقی اور آرٹس کی ترویج

       دیہی خواتین کو ان کے ثقافتی ورثے کو فروغ دینے کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔جیسے کہ دستکاری ،لوک ،موسیقی اور دیگر روایتی فنون کی ترقی۔[64]

 موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی تربیت

       دیہی خواتین کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے شعبوں میں مہارت اور تحفظ کے اقدامات سکھائے جائیں۔ جیسے زراعت اور پانی کے انتظام۔[65]

دیہی خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت

       دیہی خواتین کی نقل و حرکت اسان بنانے کے لیے سستی اور محفوظ ٹرانسپورٹ سروسز کا بندوبست کیا جائے تاکہ وہ تعلیم صحت اور روزگار تک رسائی حاصل کر سکیں۔[66]

زچگی اور بچوں کی دیکھ بھال کی سہولیات

       خواتین کے لیے زچگی کے دوران سہولیات اور بچوں کی دیکھ بھال کے مراکز فراہم کیے جائیں تاکہ وہ بہتر انداز میں اپنے خاندان کی دیکھ بھال کر سکیں ۔[67]

تعلیم میں بالغاں کے پروگرام

       دیہی خواتین کے لیے تعلیمی بالغاں کے خصوصی پروگرام شروع کیے جائیں ۔تاکہ وہ اپنی بنیادی تعلیمی ضروریات پوری کر سکیں۔[68]

کم لاگت کی توانائی تک رسائی

       دیہی خواتین کے لیے گھریلو کاموں کو اسان بنانے کے لیے سستی اور ماحول درست توانائی کے ذریعے فراہم کیے جائیں۔[69]

ای کامرس پلیٹ فارمز کی دستیابی

       دیہی خواتین کو یہ کامرس کے ذریعے اپنے بنائے ہوئے مصنوعات کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔[70]

تعلیمی اسکالرشپ اور وظیفے

       دیہی خواتین کے لیے اعلی تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لیے اسکالرشپس اور مالی معاونت کا انتظام کیا جائے ۔[71]

ذہنی صحت کے مسائل پر توجہ

       دیہی خواتین میں ذہنی صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مشاورت اور نفسیاتی مدد فراہم کی جائے۔[72]

خواتین کے قانونی امداد کے مراکز

       دیہی خواتین کے لیے قانونی امداد کے مراکز کیے جائیں تاکہ وہ اپنے حقوق تحفظ کے لیے قانونی رہنمائی حاصل کر سکی۔[73]

وومن کوآپریٹو فارمز کا قیام

       دیہی خواتین کے لیے مشترکہ زراعتی منصوبے شروع کیے جائیں۔ تاکہ وہ مسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کر سکیں اور خود کفیل بن سکیں۔[74]

پائیدار گھریلو منصوبے

       دیہی خواتین کو گھریلو توانائی کے بچت کے منصوبے جیسے سولر ،کوکنگ یا ریوزیبل انرجی کے ذریعے خود انحصاری کا موقع دیا جائے ۔[75]

مائکرو کریڈٹ پروگرامز

       خواتین کو مائیکرو کریڈٹ فراہم کر کے انہیں چھوٹے کاروباروں کے ذریعے معاشی استحکام حاصل کرنے میں مدد دی جائے۔[76]

زراعت کے جدید اوزار کی تربیت

       خواتین کو زراعت کے جدید بازار اور مشینری کے استعمال میں تربیت دی جائے تاکہ وہ زیادہ مؤثر طریقے سے کام کر سکیں۔[77]

مقامی پروڈکٹس کی برانڈنگ

       دیہی خواتین کو ان کی مصنوعات جیسے دستکاری ،کھانے کی اشیا یا کپڑے کی برانڈنگ اور مارکیٹنگ کے اصول سکھائے جائیں۔[78]

ریسورس سینٹرز کا قیام

       دیہی خواتین کے لیے ریسورس سینٹرز قائم کیے جائیں۔ جہاں وہ معلومات مشورے اور معاونت حاصل کر سکیں ۔[79]

ری سائیکلنگ اور کرافٹس کی تربیت

       ری سائیکلنگ کے ذریعے خواتین دستکاری کی اشیاء بنانے کی تربیت دی جائے۔ جو کہ نہ  صرف ماحول دوست ہے بلکہ آمدنی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔[80]

خواتین کے لیے سماجی نیٹ ورکنگ مواقع

       دیہی خواتین کے لیے سماجی نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز قائم کیے جائیں تاکہ وہ دیگر خواتین سے معلومات اور تجربات کا تبادلہ کر سکیں۔[81]


 

 

 

 

 

 

 

باب دوم:دیہی خواتین کےسماجی  اور ثقافتی رکاٹیں

فصل اول:دیہی خواتین کے تعلیمی مسائل

فصل دوم:صحت کے مسائل

فصل سوم:رسم و رواج کا دباؤ

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

فصل اول:دیہی خواتین کے تعلیمی مسائل

       دیہی خواتین کو تعلیمی میدان میں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان مسائل میں صنفی امتیاز، ثقافتی پابندیاں، اور مالی مشکلات شامل ہیں، جو انفرادی اور اجتماعی ترقی کو متاثر کرتے ہیں۔ شکاگو مینویل کے اصولوں کے تحت درج ذیل تجزیہ حوالہ جات نمبر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

1. سماجی رکاوٹیں

       دیہی معاشروں میں صنفی امتیاز خواتین کی تعلیم میں بنیادی رکاوٹ ہے۔ لڑکیوں کو عموماً گھریلو ذمہ داریوں تک محدود رکھا جاتا ہے، جبکہ تعلیم کو غیر ضروری تصور کیا جاتا ہے۔

       محمد علی لکھتے ہیں:

”والدین اکثر لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے کیونکہ انہیں سماجی روایات کی پیروی کرنی ہوتی ہے۔“[82]

2. ثقافتی رکاوٹیں

دیہی علاقوں میں موجود ثقافتی روایات جیسے کم عمری کی شادی اور سخت پردے کے اصول لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اہم رکاوٹ ہیں۔

       سمیرا خان نے اپنی تحقیق میں کہا:

”دیہی ثقافت تعلیم کو محدود کر دیتی ہے، خاص طور پر خواتین کے لیے۔“[83]

3. تعلیمی وسائل کی کمی

       دیہی اسکولوں کی محدود تعداد، خواتین اساتذہ کی کمی، اور غیر معیاری تعلیمی سہولیات لڑکیوں کی تعلیم کو متاثر کرتی ہیں۔

زہرا فاطمہ لکھتی ہیں:

”دیہی اسکولوں کی کمزور بنیادی ڈھانچہ خواتین کو تعلیم سے دور رکھتا ہے۔“[84]

4. مالی مسائل

       غریب خاندان اکثر اپنے وسائل لڑکوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں، جبکہ لڑکیوں کی تعلیم کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔

        محمد زاہد کے مطابق:

 ”معاشی دباؤ خواتین کی تعلیمی ترقی کو روک دیتا ہے“۔[85]

5. حکومتی پالیسیوں کی ناکامی

       دیہی خواتین کی تعلیم کے لیے حکومتی اقدامات اکثر ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔

        زاہدہ پروین لکھتی ہیں:

”تعلیمی پالیسیوں میں خواتین کی تعلیمی ضروریات کو نظرانداز کیا جاتا ہے“۔[86]

دیہی خواتین کے روایتی اور ثقافتی رکاوٹیں

       دیہی خواتین کو مختلف سماجی، ثقافتی، روایتی، اور اقتصادی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی ترقی اور خودمختاری میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان رکاوٹوں میں صنفی عدم مساوات، تعلیم کی کمی، کم عمری کی شادی، خاندانی دباؤ، صحت کے مسائل، اور قانونی حقوق سے ناواقفیت شامل ہیں۔ یہ رکاوٹیں نہ صرف انفرادی سطح پر خواتین کو متاثر کرتی ہیں بلکہ مجموعی طور پر معاشرے کی ترقی میں بھی رکاوٹ بنتی ہیں۔

1. رسم و رواج اور پدرشاہی نظام

       دیہی معاشروں میں رسم و رواج کی جڑیں گہری ہوتی ہیں، جن کے تحت خواتین کو مخصوص کرداروں تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ پدرشاہی نظام کے باعث مردوں کو زیادہ حقوق اور اختیارات حاصل ہوتے ہیں جبکہ خواتین کو گھریلو دائرے تک محدود رکھا جاتا ہے۔

1.1 خواتین کی نقل و حرکت پر پابندی

       دیہی خواتین کو نقل و حرکت کی مکمل آزادی حاصل نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے وہ تعلیم، ملازمت، یا کسی بھی عوامی مقام پر جانے کے مواقع سے محروم رہتی ہیں۔

1.2 فیصلہ سازی میں شمولیت کی کمی

       زیادہ تر دیہی گھرانوں میں خواتین کو اہم فیصلوں میں شامل نہیں کیا جاتا۔ چاہے وہ شادی کا فیصلہ ہو یا زمین کی خرید و فروخت، خواتین کی رائے کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔

2. تعلیم کی کمی

2.1 لڑکیوں کی تعلیم پر سماجی دباؤ

       دیہی علاقوں میں اکثر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ تعلیم لڑکیوں کے لیے غیر ضروری ہے کیونکہ وہ بالآخر شادی کر کے دوسرے گھر چلی جائیں گی۔ اس سوچ کے باعث لڑکیوں کی تعلیم کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

2.2 تعلیمی اداروں تک رسائی کا فقدان

       بہت سے دیہی علاقوں میں تعلیمی ادارے دور دراز واقع ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے لڑکیوں کے لیے اسکول جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ مزید برآں، اگر اسکول موجود بھی ہو تو وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہوتا ہے، جیسے کہ خواتین اساتذہ کی کمی، ٹوائلٹ کی عدم دستیابی، اور سفری سہولیات کی کمی۔

3. معاشی رکاوٹیں اور مالی خودمختاری کی کمی

3.1 روزگار کے مواقع کی کمی

       دیہی خواتین کو معاشی مواقع کم ملتے ہیں، کیونکہ زراعت، دستکاری، اور دیگر روایتی کاموں میں ان کی محنت کی مناسب اجرت نہیں دی جاتی۔

3.2 وراثت میں حق نہ ملنا

       قانونی حقوق ہونے کے باوجود دیہی علاقوں میں خواتین کو اکثر جائیداد میں ان کا جائز حصہ نہیں دیا جاتا۔

4. سماجی دباؤ اور شادی کے مسائل

4.1 کم عمری کی شادی

       کم عمری کی شادی دیہی خواتین کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے۔ بہت سے خاندان اپنی بیٹیوں کی جلدی شادی کر دیتے ہیں تاکہ سماجی دباؤ سے بچا جا سکے یا مالی بوجھ کم کیا جا سکے۔

4.2 گھریلو تشدد

       گھریلو تشدد دیہی خواتین کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے، مگر زیادہ تر خواتین سماجی دباؤ اور قانونی معلومات کی کمی کے باعث اس پر آواز نہیں اٹھا پاتیں۔

5. صحت اور تولیدی مسائل

5.1 زچگی کے دوران پیچیدگیاں

       دیہی خواتین کو صحت کی بنیادی سہولیات حاصل نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے زچگی کے دوران پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ بہت سی خواتین غیر تربیت یافتہ دائیوں پر انحصار کرتی ہیں، جو ماں اور بچے دونوں کی زندگی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔

5.2 تولیدی صحت سے متعلق آگاہی کی کمی           

       دیہی خواتین کو تولیدی صحت کے بارے میں کم معلومات ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔

6. قانونی اور سیاسی رکاوٹیں

6.1 قانونی حقوق سے لاعلمی

       دیہی خواتین کی اکثریت اپنے قانونی حقوق سے لاعلم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ وراثت، گھریلو تشدد، اور شادی جیسے معاملات میں اپنے حقوق کا دفاع نہیں کر پاتیں۔

6.2 سیاسی عمل میں کم شمولیت

       اگرچہ خواتین کے لیے مخصوص نشستیں موجود ہیں، مگر دیہی خواتین کی سیاسی نظام میں شمولیت کمزور ہے، کیونکہ انہیں عموماً خاندانی یا سماجی دباؤ کے تحت پیچھے رکھا جاتا ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

فصل دوم:صحت کے مسائل

       دیہی خواتین کو صحت کے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن میں

·     زچگی کی پیچیدگیاں

·     غذائی قلت

·     صاف پانی اور صفائی کی کمی

·     تولیدی صحت کے مسائل

زچگی کی پچیدگیاں

       “دیہی علاقوں میں زچگی کی صحت ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث خواتین کو پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جیسے کہ خون کی کمی ،ہائی بلڈ پریشر اور زچگی کے دوران انفیکشن۔تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تربیت یافتہ دائیوں کی موجودگی اور بنیادی طبی سہولیات کی دستیابی زچگی کے دوران اموات کی شرح کو کم کر سکتی ہیں۔ “ [87]

غذائی قلت اور انیمیا

       ”دیہی خواتین میں غذائی قلت عام ہے خاص طور پر حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں میں آئرن ،کیلشیم اور وٹامن ڈی کی کمی سے انیمیا اور ہڈیوں کی کمزوری کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔غذائی تعلیم اور متوازن غذا خوراک تک رسائی ان مسائل کا حل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے ۔“[88]

پانی اور صفائی کی کمی

       ”دیہی علاقوں میں صاف پانی اور نکاسی اب کے نکاس نظام کی وجہ سے خواتین کو مختلف بیمار یوں کا سامنا ہوتا ہے ۔جن میں جلدی بیماریاں اور پیشاب کی نالی کے انفیکشن شامل ہے۔تحقیق کے مطابق صفائی کے بہتر انتظام سے ان بیماریوں میں نمایاں کمی ا سکتی ہے ۔ “[89]

تولیدی صحت کے مسائل

       ”دیہی خواتین کو تولیدی صحت کی سہولیات تک محدود رسائی حاصل ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے غیر محفوظ زچگی، مائع حمل ادویات کی کمی اور ماہواری سے متعلقہ صحت کے مسائل عام ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق ان مسائل کو حل کرنے کے لیے تولیدی صحت کے مراکز کا قیام ضروری ہے ۔ “[90]

ذہنی صحت کے مسائل

       ”دہی خواتین کی ذہنی صحت کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے حالانکہ انہیں گھریلوتشدد ،غربت اور سماجی دباؤ جیسے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے ۔تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ دیہی علاقوں میں ذہنی صحت سے متعلق اگاہی ،مہمات اور مشاورت کی سہولت فراہم کر کے خواتین کی ذہنی صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔ “ [91]

ماحولیاتی عوامل اور صحت

       ”ذہنی خواتین کو ماحولیاتی الودگی اور دھوئیں کی وجہ سے سانس کی بیماریوں جیسے دم اور پھیپھڑوں کے انفیکشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔گھروں میں لکڑی اور کوئلے کے چولہے جلانے کی وجہ سے خواتین کو سانس کی بیماریوں کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ مطالعات سے ثابت ہوا ہے کہ متبادل توانائی کے ذریعے جیسے بائیو گیس اور ایل پی ڈی کے استعمال سے ان مسائل کو کم کیا جا سکتا ہے۔ [92]

دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کا فقدان

1۔تعارف

       دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ جس کے نتیجے میں وہاں کے رہائشیوں کو طبی خدمات کے لیے طویل فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں۔ محدود بنیادی ڈھانچے ،ناکافی طبی عملہ اور ضروری ادویات کی عدم دستیابی جیسے مسائل  دیہی آبادی کی صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔

2۔صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے بنیادی اسباب

بنیادی ڈھانچے کی کمی

       ”دہی علاقے میں جدید اسپتالوں اور کلینکس کی تعداد محدود ہے ۔جس کے باعث مریضوں کو شہروں میں مہنگا اور طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔تحقیق کے مطابق پاکستان کے 60 فیصد دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کے مراکز موجود نہیں ہیں“[93]

طبی عملے کی قلت

       ”علاقوں میں ماہر ڈاکٹر اور نرسز کی تعداد بہت کم ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1000 افراد کے لیے صرف 0.6 ڈاکٹر دستیاب ہیں جو عالمی معیار سے کم ہے“[94]

مالی مسائل

       ”کم امدنی والے افراد کے لیے مہنگی طبی خدمات تک رسائی مشکل ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دیہی علاقوں کے 70 فیصد خاندان نجی ہسپتالوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے ۔“[95]

جدید آلات اور ادویات کی عدم دستیابی

       ”وہی اسپتالوں میں جدید طبی آلات اور بنیادی ادویات اکثر دستیاب نہیں ہوتی ،جس کی وجہ سے معمولی بیماری بھی سنگین صورت اختیار کر سکتی ہے۔ ایک مطالعے میں پایا گیا کہ دہی صحت کے مراکز کے 50 فیصد میں ضروری ادویات کی قلت ہے۔“ [96]

3۔ صحت کے مسائل اور ان کے اثرات

3.1۔زچگی اور نوزائدہ بچوں کی صحت

       ”دیہی علاقوں میں زچگی کے دوران پیچیدگیوں کی شرح زیادہ ہے کیونکہ تربیت یافتہ دائیوں اور ماہر امراض نسواں کی دستیابی کم ہے ۔پاکستان میں دیہی علاقوں میں زرچگی کے دوران اموات کی شرح 178 فی 100,000 پیدائش ہے۔“ [97]

3.2۔متعدی امراض اور ویکسینیشن کا فقدان

       ”بنیادی حفاظتی ٹیکوں کی عدم دستیابی اور کم آگہی کی وجہ سے دیہی آبادی میں کئی متعدی بیماریاں عام ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق دیہی بچوں میں 40 فیصد کو مکمل ویکسینیشن نہیں لگائی جاتی ۔“[98]

4۔ممکنہ حل اور تجاویز

4.1۔موبائل ہیلتھ کلینکس

       ”موبائل کلینکس دور دراز کے دیہی علاقوں میں فوری طبی خدمات مہیا کی جا سکتی۔ بھارت میں موبائل کلینکس کے ذریعے دیہی علاقوں میں صحت کے معیار میں 30 فیصد بہتری دیکھی گئی ہے [99]

4.2۔ٹیلی میڈیسن کا فروغ

       ”ٹیلی میڈیسن کے ذریعے  دیہی مریضوں کو شہروں کے ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ لینے کی سہولت فراہم کی جا سکتی ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق ٹیلی میڈیسن کے ذریعے دیہی مریضوں کے علاج میں 50 فیصد بہتری آئی ۔“[100]

4.3۔حکومتی اور نجی شراکت

       ”حکومتی اور نجی شعبے کو مل کر دیہی علاقوں میں طبعی مراکز قائم کرنے کے لیے سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ عالمی سطح پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے ذہنی صحت کے شعبے میں 40 فیصد بہتری دیکھی گئی ہے ۔“[101]

 

 

 

 

 

 

 

 

 

فصل سوم:رسم و رواج کا دباؤ

       دیہی خواتین کو روایتی رسم و رواج اور سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو ان کی ازادی تعلیم اور ترقی کے امکانات کو محدود کرتا ہے ۔

1. 1۔سماجی اصولوں کا اثر  

·     دیہی خواتین کو اکثر روایتی اصولوں کے مطابق چلنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔

·     خاندان برادری اور مذہبی ادارے خواتین پر مخصوص طرز زندگی اپنانے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں ۔

       ”مثال کے طور پر شادی شدہ خواتین کو گھر تک محدود رکھا جاتا ہے اور تعلیم و ملازمت کے مواقع محدود ہوتے ہیں۔ [102]

1.2۔ثقافتی رسم و رواج

       کم عمری کی شادی پردہ اور گھریلو کام کاج کی پابندیاں خواتین کو خود مختاری حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔

       خواتین کو بعض مخصوص پیشوں ( جیسے کھیتوں میں کام کرنا یا دستکاری) تک محدود رکھا جاتا ہے ۔[103]

1.3۔معاشی انحصار

       دیہی خواتین اکثر معاشی طور پر مردوں پر انحصار کرتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود نہیں کر سکتیں۔

       وراثت کے حقوق میں کمی اور جائیداد کی ملکیت کے مسائل بھی خواتین کے اقتصادی دباؤ کا حصہ ہے[104]

دیہی خواتین پر رسم و رواج کے دباؤ کی اقسام

ازدواجی زندگی میں دباؤ

       دیہی علاقوں میں شادی کو خواتین کی زندگی کا سب سے اہم مقصد سمجھا جاتا ہے۔

کم عمری کی شادی

       ”کئی علاقوں میں لڑکیوں کی 15 سے 18 سال کی عمر میں شادی کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی تعلیم اور خود مختاری متاثر ہوتی ہے۔“ [105]

جہیز کا سامنا

” لڑکیوں کی شادی پر والدین کو جہیز دینا پڑتا ہے ،جس سے خاندانوں پر مالی دباؤ بڑھتا ہے۔“[106]

شوہر پر انحصار

       ”شوہر کے بغیر خواتین کو سماج میں کمتر سمجھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ طلاق یا بیوگی کی صورت میں مسائل کا سامنا کرتی ہے ۔“[107]

2.2۔تعلیم اور ملازمت میں رکاوٹیں

       ”کئی دیہی برادریوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے اگرچہ بعض علاقوں میں لڑکیاں ابتدائی تعلیم حاصل کر لیتی ہیں لیکن ان کے اعلی تعلیم پر سماجی دباؤ کی وجہ سے پابندی لگا دی جاتی ہے [108]

صحت اور جسمانی حقوق

·     زچگی کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے دیہی خواتین کو صحت کے شدید مسائل درپیش ہوتے ہیں۔

       ”مائع حمل کے  ذرائع کے بارے میں کم آگاہی اور خاندانی منصوبہ بندی پر سماجی پابندیوں کی وجہ سے خواتین پر بچے پیدا کرنے کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔( [109]

       ”بعض علاقوں میں خواتین کو صحت کی سہولیات تک مکمل رسائی نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے زچگی کے دوران اموات کی شرح زیادہ ہوتی ہے [110]

3۔رسم و رواج کا نفسیاتی اور سماجی اثر

3.1۔ذہنی دباؤ اور نفسیاتی اثرات

       ”خواتین پر عائدسماجی دباؤ ان میں خود اعتمادی کی کمی اور ذہنی دباؤ پیدا کرتا ہے [111]

       ”گھریلو تشدد اور جذباتی استحصال خواتین کی ذہنی صحت پر منفی اثرات ڈالتے ہیں“[112]

خود مختاری کی کمی

”خواتین کو اہم خاندانی فیصلوں میں شامل نہیں کیا جاتا جس سے وہ خود کو بے اختیار محسوس کرتی ہیں۔“[113]

”زیادہ تر خواتین کو اپنی شادی ملازمت اور بچوں کی تعلیم کے فیصلے خود کرنے کی آزادی نہیں دی جاتی ۔[114]

فرسودہ روایات اور خواتین کی آزادی پر فدغن

بدر شاہی نظام اور خواتین پر پابندیاں

       ”بدرشاہی ایک ایسا سماجی نظام ہے جس میں مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ یہ نظام زیادہ تر روایتی معاشروں میں موجود رہا ہے جہاں خواتین کو خاندان شادی تعلیم اور ملازمت کے حوالے سے سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ [115]

مذہبی تشریحات اور خواتین کے حقوق

       ”مختلف مذاہب میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے متضاد آرا موجود ہیں۔ بعض سخت گیر تشریحات کے مطابق خواتین کو مخصوص دائرے میں محدود رکھا جاتا ہے ۔جبکہ کچھ معتدل تشریحات خواتین کے مساوی حقوق کی حمایت کرتی ہیں۔“[116]

قبائلی اور ثقافتی روایات

       ”کئی معاشروں میں خواتین پر پابندیاں، مذہبی سے زیادہ ثقافتی اور قبائلی بنیادوں پر  عائد کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی میں غیرت کے نام پر قتل پردہ اور کم عمری کی شادی جیسی روایات خواتین کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں،“[117]

قانونی اور سماجی رکاوٹیں

       ”بہت سے ممالک میں خواتین کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے قوانین اور سماجی دباؤ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جیسے کہ سعودی عرب میں ماضی میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر مدغن ۔“[118]

جدید دور میں خواتین کی آزادی کی تحریکیں

       ”بیسویں صدی اور 21ویں صدی میں خواتین نے اپنی ازادی اور حقوق کے لیے مختلف تحریکیں چلائی۔ جیسے مغرب میںSufgragette Movement اور ترقی پذیر ممالک میں women liberation movement [119]

       دنیا بھر میں مختلف معاشرتی اور ثقافتی روایات نے خواتین کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔بعض روایات نے خواتین کو ترقی کے موقع فراہم کیے جبکہ بعض نےان کی ازادی پر قدغن لگائیں ۔ان مرسودہ روایات کا تجزیہ ضروری ہے تاکہ خواتین کے حقوق اور مساوات کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جا سکیں ۔

1۔فرسودہ روایات کی تعریف

       ”فر سودہ روایات سے مراد وہ سماجی اور ثقافتی اقدار ہیں جو وقت کے ساتھ غیر موثر ،غیر منطقی یا نقصاندہ ثابت ہو چکی ہے۔ مگر پھر بھی ان پر عمل کیا جاتا ہے ۔“[120]

2۔خواتین کی آزادی پر روایتی قدغنیں

       خواتین کی آزادی کو محدود کرنے والی کئی فرسودہ روایات مختلف معاشروں میں پائی جاتی ہیں ۔جن میں شادی تعلیم ملازمت اور سماجی شرکت جیسے معاملات شامل ہیں ۔

2.1۔تعلیم پر قدغن

       ”کئی معاشروں میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ خواتین کی تعلیم کو زیادہ ضرورت نہیں۔کیونکہ ان کا اصل کردار گھر سنبھالنا ہے اس سوچ کے باعث کئی جگہوں پر لڑکیوں کی تعلیم کو محدود کیا جاتا ہے۔  [121]

2.2۔کم عمری کی شادی

       ”کچھ ثقافتوں میں کم عمری کی شادی ایک روایت سمجھی جاتی ہے ۔جو خواتین کی صحت تعلیم اور خود مختاری پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ کم عمری کی شادی خواتین کو معاشی اور سماجی ترقی کے موقع سے محروم کر دیتی ہے۔ “[122]

2.3۔لباس پر پابندیاں

       ”کئی ثقافتی پس منظر میں خواتین کے حوالے سے سخت ضوابط موجودہیں۔ جو ان کی ذاتی آزادی کو محدود کرتے ہیں ۔یہ پابندیاں اکثر مذہب یا ثقافتی اقدار کے نام پر عائد کی جاتی ہے۔ “[123]

2.4۔خواتین کا روزگار عوامی زندگی میں کردار

[124] ”کچھ روایات کے مطابق خواتین میں گھریلو ذمہ داریاں زیادہ اہم سمجھی جاتی ہیں ۔جبکہ ملازمت اور عوامی زندگی میں ان کی شرکت کو ناپسندیدہ تصور کیا جاتا ہے۔

3۔خواتین کی آزادی کی ضرورت

       ”خواتین کی ازادی کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں خواتین کو مساوی مواقع دیے جاتے ہیں وہاں سماجی اور اقتصادی ترقی تیز ہوتی ہے “[125]

کم عمری کی شادی جہیز جیسی سماجی برائیاں

1۔تعارف

       ”کم عمری کی شادی اور جہیز جیسے مسائل برصغیر سمیت کئی ترقی پزیر ممالک میں عام ہیں۔ یہ روایات معاشرتی دباؤ غربت اور صنفی عدم مساوات کے باعث پروان چڑھتی ہیں۔ ان کے نتیجے میں خواتین کی صحت تعلیم اور معاشی خود مختاری متاثر ہوتی ہے۔“[126]

2۔کم عمری کی شادی ایک سماجی برائی

2.1۔ تاریخ اور پس منظر

       ”عمری کی شادی ایسی شادی کو کہا جاتا ہے جہاں دلہا ہے یا دلہن کی عمر قانونی حد سے کم ہوتی ہے ۔یونی سیف کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریبا 12 ملین بچوں کی 18 سال سے کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے “[127]

2.2 وجوہات

غربت اور اقتصادی دباؤ :

       مالی مشکلات کے باعث والدین بچیوں کی سے جلد شادی کر دیتے ہیں ۔

ثقافتی اور مذہبی روایات

       کچھ معاشروں میں ہی روایتی طور پر کی شادی کو قبول کیا جاتا ہے۔

تعلیم کی کمی :

       نا خواندگی والدین کو اس کے نقصانات سے بے خبر رکھتی ہے۔[128]

2.3۔اثرات

تعلیم پر اثر

       ”کم عمری میں شادی شدہ لڑکیاں تعلیم مکمل نہیں کر پاتیں“[129]

صحت کے مسائل

       ”کم عمری میں حمل کے دوران ماں اور بچے کی صحت کو خطرات لاحق ہوتے ہیں ۔“ [130]

گھریلو تشدد

       کم عمر دلہنوں کو ازدواجی زندگی میں زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

3۔جہیز ایک سماجی ناسور

3.1 تعریف اور تاریخی پس منظر

       ”جہیز وہ مان لو دولت ہوتا ہے جو دلہن کے خاندان کی طرف سے دولہا کو دیا جاتا ہے ۔جنوبی ایشیا میں یہ روایت قدیم زمانے سے چلی ا رہی ہے جگہ وقت کے ساتھ زبردستی کی شکل اختیار کر گئی ہے۔“[131]

3.2 وجوہات

معاشی استحصال

       دولہا کا خاندان زیادہ دولت حاصل کرنے کے لیے جہیز کا مطالبہ کرتا ہے ۔

بدر شاہی نظام

       خواتین کو کمتر سمجھنے کے باعث انہیں مالی بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔

3۔اثرات

خواتین پر تشدد

       جہیز نہ دینے پر خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

قتل اور خودکشیاں

       ”بھارت میں ہر سال ہزاروں خواتین جہیز کے تنازعے پر قتل کر دی جاتی ہیں۔“[132]

غربت میں اضافہ

       جہیز کی رقم دینے کے باعث لڑکی کے والدین مالی مشکلات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ 

4۔ان مسائل کے سد باب کے لیے اقدامات

4.1 حکومتی قوانین اور پالیسیاں

·     کم عمری کی شادی کی روک تھام کے قوانین

              پاکستان میں 1929 میں جائیداد میرج ریسٹورنٹ ایٹ نافذ ہوا مگر عمل درآمد کمزور ہے :

·     جہیز کے خلاف قوانین

       ”بھارت میں 1961 میں dairy prohibition act نافذ کیا گیا مگر اس کے باوجود یہ رواج برقرار ہے۔ “[133]

4.2 تعلیمی اور آگاہی مہمات

تعلیم کی فراہمی

       ”تعلیم یافتہ خواتین زیادہ خود مختار ہوتی ہیں اور کم عمری کی شادی سے بچ سکتی ہیں۔ “[134]

سوشل میڈیا اور مہمات

       ”جہیز اور کم عمری کی شادی کے خلاف آگاہی کے لیے میڈیا کا موثر استعمال ضروری ہے۔ “[135]

4۔سماجی رویوں میں تبدیلی

خواتین کو مساوی حقوق دینا

       خواتین کو مالی خود مختاری دینی ہوگی تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں۔

ثفاقتی اصلاحات

       مذہبی رہنماؤں اور سماجی کارکنوں کو ان برائیوں کے خلاف شعور پیدا کرنا ہوگا۔

کم عمری کی شادی اور جہیز کے سماجی نفسیاتی اور معاشی اثرات

       یہ دونوں برائیاں نہ صرف انفرادی سطح پر زندگیوں کو متاثر کرتی ہیں بلکہ معاشرے کی مجموعی ترقی پر بھی منفی اثر ڈالتی ہیں۔

سماجی اثرات

صنفی عدم مساوات میں اضافہ

       ”کم عمری کی شادی اور جہیز کی روایت خواتین کو کمزور اور مردوں کو طاقتور بنانے میں مدد دیتی ہے۔اس سے بدرشاہی نظام مزید مضبوط ہوتا ہے اور خواتین کو برابر کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔[136]

ناخواندگی میں اضافہ

       ”جب لڑکیوں کو کم عمری میں بیاہ دیا جاتا ہے تو ان کی تعلیم اکثر ادھوری رہ جاتی ہے۔ نتیجتاً وہ اپنے بچوں کی تعلیم نے بھی مدد نہیں کر سکتی اور اس طرح جہالت کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔“[137]

خواتین کے خلاف تشدد میں اضافہ

       ”جہیز کی ادائیگی میں ناکامی پر خواتین کو تشدد نفسیاتی دباؤ حتی کہ قتل اور خودکشی جیسے جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (بھارت) کے مطابق 2021 میں 000 7  سے زائد خواتین کو جہیز کی وجہ سے قتل کیا گیا۔[138]

 

 

نفسیاتی اثرات

ذہنی صحت پر منفی اثرات

       ”کم عمر کی شادی شدہ لڑکیوں کو اکثر گھریلو تشدد ،ازدواجی زبردستی اور جذباتی استعمال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے ذہنی دباؤ ڈپریشن پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر میں مبتلا ہو سکتی ہے۔“[139]

خود اعتمادی کی کمی

       ”جہیز کا مطالبہ کرنے والے خاندانوں میں دلہنوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے ۔جس سے ان کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے یہ احساس محرومی زندگی کے تمام شعبوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔باشمول تعلیم کے ملازمت اور سماجی تعلقات۔“[140]

معاشی اثرات

غربت میں اضافہ

       ”جہیز دینے کے لیے غریب خاندان اکثر قرض لیتے ہیں جو بعد میں ان کے لیے مالی مشکلات پیدا کرتا ہے۔ بعض اوقات والدین اپنی جائیداد بھی بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔“[141]

خواتین کی معاشی خود مختاری کا فقدان

       ”تعلیم اور ہنر سے محروم خواتین معاشی طور پر اپنے شوہروں یا سسرال پر انحصار کرتی ہیں۔ جس سے ان کے حقوق مزید محدود ہو جاتے ہیں یہ صورتحال خواتین کو عزت کے چکر میں قید کر دیتی ہے۔“[142]

ملکی ترقی پر منفی اثرات

       ”جب معاشرے میں خواتین کی تعلیم اور ملازمت کے مواقع محدود کیے جاتے ہیں۔ تو اس سے ملکی اقتصادی ترقی بھی متاثر ہوتی ہے ۔اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کی تعلیم میں سرمایہ کاری سے ملکی جی ڈی پی میں اضافہ ہوتا ہے۔“[143]

ان برائیوں کے خاتمے کے لیے ممکنہ حل

سخت قوانین کا نفاذ

       ”اگرچہ بیشتر ممالک میں کم عمری کی شادی اور جہیز کے خلاف قوانین مقرر ہیں۔ لیکن ان پر عمل درامدکمزور ہے حکومتوں کو سخت سزائیں متعارف کروانی چاہیے اور قانونی طریقہ کار کو آسان بناناچاہیے۔“[144]

نکاح میں سخت شرائط

       ”نکاح نامے میں خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے قانونی شامل کی جانی چاہیے۔ جیسے کہ حق مہر کی وضاحت جہیز کے خلاف وضاحت اور شادی کی کم از کم عمر کا اندراج۔“[145]

تعلیمی اور آگاہی مہمات

لڑکیوں کی تعلیم کا فروغ

       ”حکومتوں اور نجی اداروں کو مل کر ایسے پروگرامز متعارف کرانے چاہیے جو لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دے۔ جیسے کہ مفت تعلیمی وظائف اور سکول میں داخلے کی ترغیب۔“[146]

میڈیا اور سوشل میڈیا کا کردار

       ”ٹی وی ڈرامے فلمیں اور سوشل میڈیا کمپنیز ان برائیوں کے خلاف عوامی شعور اجاگر کر سکتی ہیں بھارت میں” beti Bachao beti padhao “جیسی مخمات نے مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔“([147]

سماجی رویوں میں تبدیلی

والدین اور برادری کی سوچ میں تبدیلی

       ”والدین کو سمجھانے کے لیے کمیونٹی، سیمینارز ،مذہبی خدمات اور تعلیمی ورکشاپ منعقد کی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنی بچیوں کے حقوق سے آگاہ ہو سکیں۔“[148]

مردوں کو شامل کرنا

       ”یہ ضروری ہے کہ صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد حضرات بھی ان مسائل کے خلاف اواز بلند کریں جہیز نہ لینے والے اور کم عمری کی شادی سے انکار کرنے والے مردوں کو سماجی طور پر سراہا جانا چاہیے۔“[149]

       کم عمری کی شادی اور جہیز کے خلاف جنگ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر شہری کا فرض ہے۔ یہ دونوں برائیاں خواتین کی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے ۔

       اگر تعلیمی قانونی اور سماجی سطح پر مناسب اقدامات کیے جائیں تو ہم ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ جہاں ہر بچی کو اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرنے خود مختار ہونے اور اپنی زندگی کے فیصلے  خود کرنے کا حق حاصل ہو ۔

       اگر تعلیمی قانونی اور سماجی سطح پر مناسب اقدامات کیے جائیں تو ہم ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ جہاں پر ہر بچی کو اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرنے خود مختار ہونے اور اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق حاصل ہو۔

”تعلیم دو شعور دو اور جہیز کم عمری کی شادی کے خلاف متحد ہو جاؤ“

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


 

 

 

 

 

باب سوم:مسائل کے حل او شفارشات

فصل اول:حکومتی  اقدامات اور پالیسیاں

فصل دوم:دیہی ترقیاتی پروگرامز

فصل سوم : شعور اور آگاہی

 

 

 

 

 

      

 

فصل اول:حکومتی  اقدامات اور پالیسیاں

       دیہی خواتین کی بہبود کے لیے حکومتی اقدامات اور پالیسیز مختلف شعبوں میں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان کے معیارِ زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ دیہی خواتین معاشرتی اور معاشی ترقی کا اہم حصہ ہیں، اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت نے مختلف منصوبے اور پروگرامز نافذ کیے ہیں۔ ذیل میں ان اقدامات کی تفصیل دی گئی ہے:

1۔تعلیم کا فروغ

       ”دیہی خواتین کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے حکومت نے اسکولوں کی تعمیر، لڑکیوں کے لیے وظائف، اور اساتذہ کی تربیت کے پروگرام متعارف کروائے ہیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں اسکولز تک رسائی کو یقینی بنانے اور معیاری تعلیم فراہم کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، بالغ خواتین کے لیے خواندگی کے مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں تاکہ وہ بنیادی تعلیم حاصل کر سکیں۔[150]

2۔معاشی خود مختاری

       ”دیہی خواتین کو معاشی طور پر خود مختار بنانے کے لیے مائیکرو فائنانس اسکیمز اور سمال بزنس گرانٹس فراہم کی گئی ہیں۔ ان پالیسیز کے تحت خواتین کو چھوٹے کاروبار شروع کرنے یا زرعی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کے لیے مالی امداد دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، خواتین کے لیے ہنر سیکھنے کے مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں تاکہ وہ مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کر سکیں۔“[151]

3۔صحت کی سہولیات

       ”دیہی خواتین کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی صحت مراکز (BHU) اور زچہ و بچہ کے مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ حکومت نے تولیدی صحت اور غذائیت کے حوالے سے خصوصی پروگرام بھی شروع کیے ہیں تاکہ خواتین کو بہتر صحت کی سہولیات میسر ہوں۔ اس کے علاوہ، دیہی علاقوں میں موبائل میڈیکل یونٹس بھی متعارف کروائے گئے ہیں تاکہ دور دراز علاقوں تک صحت کی خدمات پہنچائی جا سکیں۔“[152]

4۔سماجی تحفظ کے اقدامات

       ”سماجی تحفظ کے تحت، خواتین کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے اسکیمز متعارف کروائے گئے ہیں، جو خاص طور پر غریب اور مستحق خواتین کو مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔ ان پروگرامز کے ذریعے خواتین کو مالی استحکام دینے کے علاوہ ان کی زندگی میں خود اعتمادی بھی پیدا کی جاتی ہے۔“[153]

5۔قانونی تحفظ اور حقوق کی فراہمی

       ”دیہی خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے مختلف قوانین نافذ کیے گئے ہیں، جیسے وراثتی حقوق کے قوانین اور گھریلو تشدد سے تحفظ کے قوانین۔ ان قوانین کو دیہی علاقوں میں نافذ کرنے کے لیے آگاہی مہمات اور قانونی معاونت فراہم کی جا رہی ہے تاکہ خواتین اپنے حقوق سے آگاہ ہو سکیں اور ان کا دفاع کر سکیں۔“[154]

زرعی شعبے میں خواتین کی معاونت

       ”چونکہ دیہی خواتین کا بڑا حصہ زراعت سے وابستہ ہے، حکومت نے ان کے لیے زرعی آلات اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے اقدامات کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، خواتین کو زرعی تربیت دینے کے لیے ورکشاپس اور سیمینارز بھی منعقد کیے جا رہے ہیں تاکہ ان کی پیداواریت میں اضافہ ہو سکے۔“[155]

 

 

7۔دیہی خواتین کے لیے تربیتی پروگرامز

       ”حکومت نے دیہی خواتین کو جدید مہارتیں سکھانے کے لیے مختلف تربیتی پروگرامز کا آغاز کیا ہے۔ ان پروگرامز میں خواتین کو کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم، دستکاری، سلائی، کڑھائی، اور دیگر ہنر سکھائے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنے گھریلو حالات کو بہتر بنا سکیں اور روزگار کے مواقع پیدا کر سکیں۔ ان تربیتی مراکز کے قیام کا مقصد خواتین کو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق تیار کرنا ہے تاکہ وہ اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکیں۔“[156]

8۔ماحولیاتی تحفظ میں شمولیت

       ”دیہی خواتین کو ماحولیاتی تحفظ کے منصوبوں میں شامل کرنے کے لیے حکومت نے خصوصی اسکیمز متعارف کروائی ہیں، جیسے شجرکاری مہمات میں حصہ لینا اور ماحول دوست زراعت کے طریقے اپنانا۔ خواتین کو زرعی زمینوں میں ماحول دوست کھادوں اور پانی کی بچت کے طریقوں کے استعمال کے لیے تربیت دی جا رہی ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنی پیداوار میں اضافہ کریں بلکہ ماحول کی حفاظت میں بھی اہم کردار ادا کریں۔“[157]

9۔انفارمیشن ٹیکنالوجی تک رسائی

       ”دیہی خواتین کو ڈیجیٹل دنیا سے جوڑنے کے لیے حکومتی سطح پر متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ ان میں خاص طور پر انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے، موبائل ایپلیکیشنز کے ذریعے زرعی معلومات فراہم کرنے اور آن لائن کاروبار کے مواقع پیدا کرنے کے پروگرام شامل ہیں۔ ان اقدامات سے خواتین اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ اور فروخت آن لائن کر سکتی ہیں، جو ان کے کاروبار کو ترقی دینے میں مدد فراہم کرتا ہے۔“[158]

10۔آفات سے بچاؤ کے اقدامات

       ”قدرتی آفات اور ہنگامی حالات میں دیہی خواتین کی مدد کے لیے حکومتی ادارے خصوصی طور پر فعال ہیں۔ سیلاب، زلزلے، اور دیگر آفات کے دوران خواتین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے، بنیادی ضروریات فراہم کرنے اور بعد از آفات ان کی بحالی کے لیے منصوبے بنائے گئے ہیں۔ ان اسکیمز کے تحت خواتین کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔“[159]

11۔خواتین کے حقوق کے لیے آگاہی مہمات

       ”دیہی علاقوں میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے حکومت مختلف آگاہی مہمات چلا رہی ہے۔ ان مہمات کے ذریعے خواتین کو ان کے قانونی اور سماجی حقوق سے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، جائیداد میں حصہ، تعلیم کا حق، اور شادی کے معاملات میں ان کی رضامندی شامل ہیں۔ ان مہمات میں مذہبی اور سماجی رہنماؤں کا بھی تعاون حاصل کیا جاتا ہے تاکہ معاشرتی سطح پر مثبت تبدیلی لائی جا سکے۔“[160]

دیہی خواتین کے حکومتی اقدامات اور پالیسیاں: قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلی جائزہ

       پاکستان میں دیہی خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے حکومت نے مختلف پالیسیاں اور منصوبے متعارف کرائے ہیں۔ ان اقدامات کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جانچنا ضروری ہے، کیونکہ قرآن و حدیث خواتین کے حقوق، تعلیم، معیشت، اور قانونی تحفظ پر خاص زور دیتے ہیں۔

1. دیہی خواتین کے بنیادی حقوق اور حکومتی پالیسیاں: قرآنی نقطہ نظر

(أ) مساوات اور انسانی وقار

       اسلام میں خواتین کو مردوں کے برابر انسانی وقار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ[161]

"اور ہم نے بنی آدم کو عزت دی"۔

       یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو اللہ نے عزت دی ہے۔ اس اصول کے تحت حکومت نے ویمن ایمپاورمنٹ پالیسی کے تحت دیہی خواتین کے لیے قانونی، سماجی، اور اقتصادی اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔

(ب) تعلیم کا حق

       تعلیم ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ قرآن میں ہے:

يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ“

"اللہ ایمان والوں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے" ۔[162]

       نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے"۔[163]

       ان اسلامی تعلیمات کے مطابق حکومت پاکستان نے دیہی خواتین کے لیے درج ذیل تعلیمی اقدامات کیے ہیں:

1. وسیلہ تعلیم پروگرام: اس منصوبے کے تحت دیہی لڑکیوں کو اسکالرشپ دی جاتی ہیں تاکہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں۔

2. دیہی اسکول اپگریڈیشن اسکیم: دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات میں بہتری لانے کے لیے پرائمری اسکولوں کو ہائی اسکولوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

3. بچیوں کے لیے مفت تعلیم اسکیم: مختلف صوبوں میں، خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں، لڑکیوں کی تعلیم کے لیے وظائف دیے جا رہے ہیں۔

(ج) خواتین کی معیشت میں شمولیت

       اسلام خواتین کو محنت کرنے اور اپنی کمائی خود رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ حضرت خدیجہؓ ایک کامیاب تاجرہ تھیں اور نبی اکرم ﷺ نے ان کی تجارت کو سراہا۔

       قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ“[164]

"مردوں کے لیے ان کی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کی کمائی کا حصہ ہے" ۔

       اس اصول کے مطابق حکومت نے دیہی خواتین کے لیے درج ذیل اقدامات کیے ہیں:

1. احساس کاروبار اسکیم: دیہی خواتین کو بلاسود قرضے فراہم کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کر سکیں۔

2. زرعی ترقیاتی اسکیم:خواتین کسانوں کے لیے آسان شرائط پر قرضے اور کھاد، بیج اور دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

3. خواتین دستکاری مراکز: خواتین کو ہنر سکھانے کے لیے دستکاری مراکز قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ گھریلو سطح پر روزگار حاصل کر سکیں۔

2. دیہی خواتین کے قانونی حقوق اور حکومتی پالیسیاں

(أ) وراثت میں حق

       اسلامی قانون میں خواتین کو وراثت کا حق دیا گیا ہے، لیکن دیہی علاقوں میں اکثر خواتین کو ان کے جائز حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ[165]

"اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے: لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے" ۔

       حکومت پاکستان نے اس اسلامی اصول کے مطابق "ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ" نافذ کیا ہے، جس کے تحت خواتین کو ان کی وراثتی جائیداد کے حقوق دیے جا رہے ہیں۔

(ب) گھریلو تشدد سے تحفظ

       نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین سلوک کرے" ۔[166]

       اس حدیث کی روشنی میں حکومت نے "گھریلو تشدد کے خلاف قوانین" بنائے ہیں، جن کے تحت دیہی خواتین کو قانونی تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔

(ج) جبری شادیوں کے خلاف قوانین

       جبری شادی اسلام میں ممنوع ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

       "بیوہ عورت کی شادی اس کی اجازت کے بغیر نہ کی جائے اور کنواری لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر نہ کی جائے" ۔[167]

       حکومت پاکستان نے "چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ" اور "جبری شادی کے خلاف قوانین" متعارف کرائے ہیں تاکہ دیہی خواتین کو زبردستی شادیوں سے بچایا جا سکے۔

3. دیہی خواتین کے سماجی حقوق اور حکومتی اقدامات

(أ) صحت کی سہولیات

       نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"صحت مند جسم کے بغیر دین کو مکمل طریقے سے ادا نہیں کیا جا سکتا" ۔[168]

       اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے دیہی خواتین کے لیے درج ذیل منصوبے متعارف کرائے ہیں:

1. لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام: دیہی علاقوں میں خواتین کو بنیادی طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

2. مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ اسکیم: حاملہ خواتین کو صحت کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں تاکہ زچہ و بچہ کی اموات میں کمی ہو۔

دیہی خواتین کے حکومتی اقدامات اور پالیسیاں: اسلامی نقطہ نظر

       پاکستان میں دیہی خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت نے مختلف اقدامات اور پالیسیاں متعارف کرائی ہیں۔ ان پالیسیوں کو اسلامی اصولوں اور قرآن و حدیث کی روشنی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ اسلام خواتین کے حقوق، تعلیم، معیشت، اور معاشرتی تحفظ پر زور دیتا ہے۔

1. خواتین کے حقوق اور حکومتی پالیسیاں: قرآنی تعلیمات

       قرآن مجید نے خواتین کے وقار، حقوق، اور ان کی ترقی کے بارے میں کئی اصول بیان کیے ہیں جو حکومت کے دیہی خواتین کے لیے اقدامات میں نظر آتے ہیں:

(أ) مساوات اور عزت

       اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ[169]

"اور ہم نے بنی آدم کو عزت دی" ۔

       یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ اسلام میں تمام انسان برابر ہیں، اور حکومت کو چاہیے کہ خواتین کے ساتھ عزت و وقار کے ساتھ برتاؤ کرے، خاص طور پر دیہی خواتین کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کرے۔

(ب) تعلیم کا حق

       قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ[170]

"اللہ ایمان والوں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے" ۔

       اس آیت کی روشنی میں حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) اور وسیلہ تعلیم پروگرام جیسے منصوبے دیہی خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیے بنائے تاکہ اسلامی اصولوں کے مطابق خواتین کی تعلیمی ترقی ہو۔

2. دیہی خواتین کی معاشی خود مختاری: حدیث کی روشنی میں

(أ) محنت کی اہمیت

       نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

" سب سے بہتر کمائی وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے کرے "[171]

       اس حدیث کی روشنی میں حکومت نے دیہی خواتین کے لیے "احساس پروگرام"، "خواتین کے لیے آسان قرضہ اسکیم"، اور "زرعی ترقیاتی منصوبے" بنائے تاکہ وہ محنت کرکے خود کفیل بن سکیں۔

(ب) کاروباری مواقع

       حضرت خدیجہؓ ایک کامیاب تاجرہ تھیں اور نبی کریم ﷺ نے ان کی تجارت کو سراہا۔ اسی سنت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے "ویمن انٹرپرینیورشپ پروگرام" متعارف کرایا تاکہ دیہی خواتین کو کاروباری مواقع ملیں۔

3. خواتین کے سماجی تحفظ کے اسلامی اصول

(أ) وراثت اور مالی حقوق

       قرآن میں ہے:

       لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ[172]

       "مردوں کے لیے ان کے والدین اور رشتہ داروں کی چھوڑی ہوئی میراث میں حصہ ہے اور عورتوں کے لیے بھی"۔

       اس اصول کے تحت حکومت نے دیہی خواتین کے وراثتی حقوق کے تحفظ کے لیے "ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ" نافذ کیا۔

(ب) گھریلو تشدد سے تحفظ

       نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین سلوک کرے" ۔[173]

       اس اصول کے تحت حکومت نے "گھریلو تشدد کے خلاف قوانین" بنائے اور "ویمن پروٹیکشن سنٹرز" قائم کیے تاکہ دیہی خواتین کو انصاف مل سکے۔

       اسلامی اصولوں کی روشنی میں پاکستانی حکومت کے کئی اقدامات دیہی خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ قرآن و حدیث میں دی گئی تعلیمات کے مطابق حکومت کا فرض ہے کہ خواتین کو تعلیم، معیشت، اور قانونی حقوق میں مساوی مواقع فراہم کرے۔

یہ تمام اسلامی اور حکومتی اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ دیہی خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے شریعت اور ریاست دونوں مل کر کام کر رہی ہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

فصل دوم:دیہی ترقیاتی پروگرامز

       ”دیہی خواتین کی ترقیاتی پروگرامز کا بنیادی مقصد دیہی علاقوں میں خواتین کو معاشی، سماجی اور تعلیمی طور پر بااختیار بنانا ہے۔ ان پروگرامز کے ذریعے خواتین کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں، ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جاتی ہے، اور ان کی صحت و بہبود کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ یہ پروگرامز حکومت، غیر سرکاری تنظیموں (NGOs)، اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے ترتیب دیے جاتے ہیں تاکہ دیہی علاقوں میں پائیدار ترقی کو ممکن بنایا جا سکے۔ “[174]

       ”تعلیمی ترقیاتی پروگرامز دیہی خواتین کو خواندگی اور مہارت کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ان پروگرامز میں بنیادی تعلیم، ہنر سکھانے والی ورکشاپس، اور تکنیکی تربیت شامل ہے۔ خواتین کو چھوٹے کاروبار کرنے کی تربیت دی جاتی ہے، جو ان کے مالی استحکام کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ پروگرامز دیہی خواتین کو نہ صرف خودمختار بناتے ہیں بلکہ انہیں اپنے خاندان اور معاشرے کی ترقی میں بھی حصہ لینے کے قابل بناتے ہیں۔ “[175]

       ”صحت کے شعبے میں دیہی خواتین کے لیے ترقیاتی پروگرامز ماں اور بچے کی صحت کو بہتر بنانے پر زور دیتے ہیں۔ ان پروگرامز کے تحت خواتین کو زچگی کی خدمات، ویکسینیشن، اور غذائیت سے متعلق آگاہی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کے مراکز قائم کیے جاتے ہیں تاکہ خواتین کو صحت کے مسائل میں فوری مدد مل سکے۔ یہ اقدامات خواتین کی مجموعی صحت میں نمایاں بہتری لاتے ہیں۔ “[176]

       ”معاشی ترقی کے لیے دیہی خواتین کو مائیکرو فنانس پروگرامز کے ذریعے مالی وسائل تک رسائی فراہم کی جاتی ہے۔ ان پروگرامز میں خواتین کو چھوٹے قرضے دیے جاتے ہیں، جن کے ذریعے وہ اپنا کاروبار شروع کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ، زراعت اور دستکاری کے شعبوں میں خواتین کو تکنیکی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی مہارتوں کو بہتر بنا سکیں اور معاشی طور پر خود کفیل ہو سکیں۔ “[177]

       ”سماجی سطح پر، ترقیاتی پروگرامز خواتین کو قیادت کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ دیہی خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے اور قانونی رہنمائی فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ سماجی مسائل سے مؤثر طور پر نمٹ سکیں۔ یہ پروگرامز خواتین کو خود اعتمادی دیتے ہیں اور انہیں اپنے فیصلے کرنے کے قابل بناتے ہیں، جو دیہی معاشرے کی سماجی ترقی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ “[178]

       ”مجموعی طور پر، دیہی خواتین کی ترقیاتی پروگرامز ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر مثبت اثر ڈالنے کا ذریعہ ہیں۔ ان اقدامات کے ذریعے دیہی علاقوں میں خواتین کی خودمختاری، تعلیم، صحت، اور معاشی ترقی کو ممکن بنایا جاتا ہے، جو ایک بہتر اور مستحکم”معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔  دیہی خواتین کی ترقیاتی پروگرامز کے تحت دیہی خواتین کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جاتے ہیں، جن میں خاص طور پر زراعت، دستکاری، اور چھوٹے کاروبار شامل ہیں۔ ان پروگرامز کے ذریعے خواتین کو جدید تکنیکی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ وہ زراعت میں بہتر پیداوار حاصل کر سکیں اور اپنی مصنوعات کو بہتر انداز میں مارکیٹ تک پہنچا سکیں۔ ان اقدامات سے نہ صرف خواتین کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ دیہی معیشت کو بھی استحکام حاصل ہوتا ہے۔ “[179]

       ”دیہی خواتین کے لیے سماجی تبدیلی کے پروگرامز بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان پروگرامز کے ذریعے خواتین کو سماجی حقوق، خاندانی منصوبہ بندی، اور صنفی مساوات کے بارے میں شعور فراہم کیا جاتا ہے۔ ان پروگرامز کے تحت دیہی علاقوں میں کمیونٹی سینٹرز قائم کیے جاتے ہیں جہاں خواتین کو تربیت اور مشاورت فراہم کی جاتی ہے۔ یہ مراکز خواتین کو معاشرتی مسائل کو حل کرنے اور خوداعتمادی حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ( “[180]

       ”ماحولیاتی ترقی کے حوالے سے بھی دیہی خواتین کے لیے مخصوص پروگرامز موجود ہیں۔ ان پروگرامز میں خواتین کو ماحولیات کے تحفظ اور پائیدار ترقی کے اصولوں پر تربیت دی جاتی ہے۔ ان اقدامات کے تحت دیہی خواتین کو درخت لگانے، پانی کی بچت، اور زراعت کے ماحول دوست طریقوں کے بارے میں آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ پروگرامز خواتین کو قدرتی وسائل کے بہتر استعمال کے قابل بناتے ہیں اور ماحولیات کی بہتری میں ان کے کردار کو بڑھاتے ہیں۔ “[181]

       ”ٹیکنالوجی کے استعمال کے فروغ کے لیے بھی دیہی خواتین کو جدید تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ ان پروگرامز کے تحت خواتین کو ڈیجیٹل خواندگی، ای-کامرس، اور موبائل ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ ان پروگرامز سے دیہی خواتین اپنی مصنوعات کو آن لائن فروخت کرنے اور ڈیجیٹل مالیاتی خدمات سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہو جاتی ہیں۔ “[182]

       ”مجموعی طور پر، دیہی خواتین کی ترقیاتی پروگرامز ان کی زندگی کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان پروگرامز کے ذریعے خواتین کو سماجی، اقتصادی، تعلیمی، اور ماحولیاتی شعبوں میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں، جو ایک مضبوط اور متوازن معاشرے کی تشکیل کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان اقدامات کے ذریعے نہ صرف دیہی خواتین کی زندگی بہتر ہوتی ہے بلکہ پورے دیہی معاشرے کو ترقی کے نئے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ “[183]

       پاکستان میں دیہی خواتین کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کئی ترقیاتی پروگرامز موجود ہیں جو حکومتی، غیر سرکاری تنظیموں (NGOs)، اور بین الاقوامی اداروں کی مدد سے چلائے جا رہے ہیں۔ یہ پروگرامز تعلیم، صحت، معاشی خودمختاری، اور قانونی حقوق کے فروغ پر مرکوز ہیں۔

1. تعلیم اور خواندگی کے فروغ کے پروگرام

الف) نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ پروگرام

       ”یہ پروگرام دیہی خواتین میں بنیادی تعلیم اور خواندگی کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کے تحت بالغ خواتین کے لیے نائٹ اسکولز اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز قائم کیے جاتے ہیں۔“[184]

ب) بی نظیر انکم سپورٹ پروگرام  – وسیلہ تعلیم

       ”یہ پروگرام غریب خاندانوں کی خواتین کو مالی امداد فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکیں، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا جاتا ہے۔“[185]

2. معاشی خودمختاری کے پروگرام

الف) اخوت مائیکرو فنانس پروگرام

       ”یہ دیہی خواتین کو بغیر سود قرضے فراہم کرتا ہے تاکہ وہ چھوٹے کاروبار شروع کر سکیں اور اپنی معاشی حالت بہتر بنا سکیں۔“[186]

ب) ویمن امپاورمنٹ انیشیٹو

       ”یہ پروگرام خواتین کو کاروباری تربیت، ہنر سیکھنے، اور مالیاتی وسائل تک رسائی فراہم کرتا ہے تاکہ وہ خودکفیل ہو سکیں۔“[187]

3. صحت کے شعبے میں ترقیاتی پروگرام

الف) لیڈی ہیلتھ ورکرز  پروگرام

       یہ پروگرام دیہی علاقوں میں خواتین کو بنیادی صحت کی سہولیات، زچگی کی دیکھ بھال، اور حفاظتی ٹیکے فراہم کرتا ہے۔

ب) میری اسٹوپس سوسائٹی  پروگرام

       ”یہ خواتین کو تولیدی صحت، خاندانی منصوبہ بندی، اور زچہ و بچہ صحت کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔

4. خواتین کے قانونی حقوق کے فروغ کے پروگرام

الف) وویمن پروٹیکشن سینٹرز

       ”یہ مراکز دیہی خواتین کو گھریلو تشدد، جائیداد کے حقوق، اور قانونی مدد فراہم کرتے ہیں۔“[188]

ب) یو این ویمن  پاکستان میں خواتین کے حقوق کے منصوبے

       ”یہ پروگرام خواتین کو قانونی معلومات، تربیت، اور انصاف تک رسائی فراہم کرتا ہے۔“[189]۔

       یہ ترقیاتی پروگرام دیہی خواتین کو تعلیم، صحت، معیشت، اور قانونی مدد فراہم کرکے ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی لا رہے ہیں۔ ان پروگرامز کو مزید موثر بنانے کے لیے حکومتی سرپرستی، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، اور آگاہی مہمات ضروری ہیں۔

دیہی خواتین کی زندگی کو بہتر بنانے کے ترقیاتی پروگرام

       پاکستان میں دیہی خواتین کو درپیش سماجی، معاشی، تعلیمی اور صحت کے مسائل کے حل کے لیے مختلف ترقیاتی پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ ان پروگراموں کا مقصد خواتین کو خود مختار اور بااختیار بنانا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کے معیار کو بہتر بنا سکیں۔ ان اقدامات میں حکومتی منصوبے، غیر سرکاری تنظیموں  کے اقدامات، اور بین الاقوامی اداروں کی شراکت شامل ہے۔

1. معاشی بااختیاریت کے پروگرام

(الف) خواتین کے لیے مائیکرو فنانس اسکیمیں

       مائیکرو فنانس کا بنیادی مقصد دیہی خواتین کو مالی وسائل فراہم کرنا ہے تاکہ وہ کاروبار شروع کر سکیں۔ اخوت فاؤنڈیشن اور کشف فاؤنڈیشن جیسے ادارے دیہی خواتین کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کرتے ہیں۔ ان قرضوں سے خواتین زرعی کاروبار، دستکاری، اور دیگر چھوٹے پیمانے کے کاروبار چلا سکتی ہیں۔

(ب) خواتین کے لیے کاروباری تربیت

       پاکستان میں "ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری"  دیہی خواتین کو کاروباری تربیت فراہم کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن کے ذریعے بھی مختلف کاروباری تربیتی پروگرام متعارف کروائے جا رہے ہیں۔

(ج) زرعی ترقی کے منصوبے

       پاکستان میں زیادہ تر دیہی خواتین زراعت سے وابستہ ہیں۔ حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں زراعت میں جدید طریقے متعارف کروا رہی ہیں تاکہ خواتین زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں۔ پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل  خواتین کسانوں کو جدید کھاد، بیج، اور زرعی تربیت فراہم کر رہی ہے۔[190]

2. تعلیمی ترقی کے پروگرام

(الف) دیہی لڑکیوں کے لیے وظائف

       دیہی لڑکیوں کی تعلیمی ترقی کے لیے حکومتِ پاکستان نے "زینب اسکالرشپ پروگرام" اور "پاکستان ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ" جیسے منصوبے متعارف کرائے ہیں۔ اس کے علاوہ، کئی غیر سرکاری تنظیمیں جیسے "دی لرننگ الائنس" اور "دی ایجوکیشن فاؤنڈیشن" بھی دیہی لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دے رہی ہیں۔

(ب) بالغ خواتین کی خواندگی مہم

       بہت سی دیہی خواتین بچپن میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں، اس لیے حکومت نے نان فارمل ایجوکیشن سینٹرز قائم کیے ہیں جہاں بالغ خواتین کو بنیادی تعلیم دی جاتی ہے۔ یونیسکو اور الف اعلان جیسے ادارے اس مہم میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔

(ج) ڈیجیٹل تعلیم کے پروگرام

       پاکستان میں "ڈیجیٹل لرننگ پروگرام" کے تحت دیہی خواتین کو آن لائن تعلیم اور ہنر سکھانے کے منصوبے متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ مختلف این جی اوز اور حکومت مل کر ان منصوبوں کو کامیاب بنا رہی ہیں۔[191]

3. صحت اور ماں و بچے کی فلاح و بہبود

(الف) موبائل ہیلتھ یونٹس

       حکومت پاکستان نے دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے موبائل ہیلتھ یونٹس متعارف کرائے ہیں۔ یہ یونٹس خواتین کو ان کے گھروں کے قریب بنیادی صحت کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

(ب) ماں اور بچے کی صحت کے مراکز

       حکومتِ پاکستان اور یونیسیف نے مل کر زچگی کے دوران پیچیدگیوں کو کم کرنے کے لیے "مدر اینڈ چائلڈ کیئر سینٹرز" قائم کیے ہیں، جہاں خواتین کو محفوظ زچگی کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

(ج) غذائی بہتری کے منصوبے

       دیہی خواتین اور بچوں میں غذائیت کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ "نیشنل نیوٹریشن پروگرام" کے تحت حاملہ خواتین اور بچوں کو متوازن غذا فراہم کی جا رہی ہے۔[192]

4. قانونی حقوق اور خواتین کا تحفظ

(الف) خواتین کے لیے قانونی معاونت مراکز

       پاکستان میں خواتین کو قانونی معاونت فراہم کرنے کے لیے مختلف مراکز قائم کیے گئے ہیں، جیسے عورت فاؤنڈیشن، لیگل ایڈ سوسائٹی، اور ویمن پروٹیکشن سینٹرز۔

(ب) دیہی خواتین میں قانونی آگاہی مہم

       قانونی تعلیم اور آگاہی کی کمی دیہی خواتین کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ "لیگل اویئرنیس فار ویمن" جیسے پروگراموں کے ذریعے خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔

(ج) خواتین پر تشدد کے خلاف اقدامات

       حکومت نے "وائلنس اگینسٹ وومن سینٹرز" قائم کیے ہیں، جہاں خواتین اپنی شکایات درج کروا سکتی ہیں اور قانونی مدد حاصل کر سکتی ہیں۔[193]

5. سماجی ترقی اور ثقافتی بحالی کے اقدامات

(الف) خواتین کی تنظیم سازی اور کوآپریٹیو سوسائٹیز

       پاکستان رورل سپورٹ پروگرام دیہی خواتین کے خود مختار گروہ بنا کر انہیں زراعت، دستکاری، اور دیگر کاروباری سرگرمیوں میں شامل کر رہا ہے۔

(ب) خواتین کے لیے کمیونٹی سینٹرز

       حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے "کمیونٹی سینٹرز" بنا رہی ہیں، جہاں وہ مختلف ہنر سیکھ سکتی ہیں اور اپنی سماجی سرگرمیوں کو فروغ دے سکتی ہیں۔

(ج) خواتین کے لیے میڈیا اور آگاہی مہمات

       مختلف میڈیا چینلز، ریڈیو، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے دیہی خواتین کو ان کے حقوق اور مواقع کے بارے میں آگاہی دی جا رہی ہے۔[194]

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

فصل سوم:شعور اور آگاہی

دیہی خواتین میں عوامی شعور بیدار کرنے کی اہمیت

       دیہی خواتین کسی بھی ملک کی معاشرتی اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں انہیں متنوع چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مسائل میں تعلیمی پسماندگی، صحت کی ناکافی سہولیات، گھریلو تشدد، جائیداد میں عدم شراکت، اور سماجی و اقتصادی ناہمواری شامل ہیں۔ عوامی شعور بیدار کرنا ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک مؤثر طریقہ ہے، کیونکہ اس سے خواتین کو ان کے حقوق، مواقع اور وسائل سے متعلق آگاہی ملتی ہے۔

1. خواتین کے حقوق اور خودمختاری

       پاکستان میں دیہی خواتین کو اکثر روایتی پابندیوں اور قانونی معلومات کی کمی کی وجہ سے اپنے بنیادی حقوق سے لاعلم رکھا جاتا ہے۔ ان کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کو تسلیم کرنے کے لیے عوامی شعور بیداری ناگزیر ہے۔ خواتین کو ان کے جائیداد کے حق، تعلیم، ووٹ کے استعمال، اور قانونی تحفظ کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ خود کو بااختیار بنا سکیں۔

       مثال: دیہی علاقوں میں اکثر خواتین کو وراثت میں ان کا جائز حق نہیں ملتا۔ اگر انہیں اسلامی اور ملکی قوانین سے آگاہ کیا جائے تو وہ قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اپنا حق حاصل کر سکتی ہیں[195]

2. تعلیم کی اہمیت

       تعلیم عوامی شعور بیدار کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ تعلیم یافتہ خواتین نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکتی ہیں بلکہ وہ اپنی نسلوں کے لیے بھی ترقی کی راہیں ہموار کرتی ہیں۔ پاکستان میں دیہی خواتین کی تعلیم کے حوالے سے کئی رکاوٹیں موجود ہیں، جن میں ثقافتی نظریات، غربت، اور تعلیمی اداروں تک محدود رسائی شامل ہیں۔

حل:

·     لڑکیوں کی تعلیم کے لیے وظائف متعارف کرائے جائیں۔

·     خواتین اساتذہ کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔

·     کمیونٹی اسکولز قائم کیے جائیں تاکہ خواتین کو گھروں کے قریب تعلیمی مواقع میسر آ سکیں۔[196]

3. صحت اور خاندانی منصوبہ بندی

       پاکستان میں دیہی خواتین اکثر صحت کی سہولیات سے محروم رہتی ہیں۔ زچگی کے دوران طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے شرح اموات زیادہ ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی اور زچہ و بچہ کی صحت سے متعلق شعور بیدار کرنے سے نہ صرف خواتین کی صحت بہتر ہو سکتی ہے بلکہ وہ بہتر فیصلہ سازی بھی کر سکتی ہیں۔

اقدامات:

·     بنیادی صحت کے مراکز کی تعداد بڑھائی جائے۔

·     خواتین کو متوازن غذا اور حفاظتی ٹیکوں کے فوائد سے آگاہ کیا جائے۔

·     خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں شعور بیدار کیا جائے تاکہ آبادی میں توازن قائم رکھا جا سکے ۔[197]

       بی ٹی شیخ اور جے ہیچر۔ "پاکستان میں صحت کی تلاش کے رویے اور صحت کی خدمات کے استعمال کے مسائل۔"

4. اقتصادی خودمختاری اور روزگار کے مواقع

       معاشی خودمختاری خواتین کی خود انحصاری کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اگر خواتین کو معاشی مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کر سکتی ہیں بلکہ قومی معیشت میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔

اقدامات:

·     دستکاری، زراعت اور مائیکرو فنانس کے ذریعے خواتین کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔

·     دیہی خواتین کو کاروباری تربیت دی جائے تاکہ وہ مقامی مصنوعات بنا کر مارکیٹ میں فروخت کر سکیں ۔[198]

5. خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام

       گھریلو تشدد، زبردستی شادی، اور جنسی ہراسانی کے خلاف شعور اجاگر کرنا دیہی خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر مرد اور خواتین دونوں کو ان مسائل کے قانونی اور سماجی اثرات سے آگاہ کیا جائے تو صنفی انصاف کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

اقدامات:

·     گھریلو تشدد کے خلاف قوانین سے آگاہی بڑھائی جائے۔

·     خواتین کے لیے ہیلپ لائن اور قانونی مشاورت کے مراکز قائم کیے جائیں۔

       ”کمیونٹی میں ایسے تعلیمی پروگرام متعارف کرائے جائیں جو صنفی مساوات کی اہمیت پر زور دیں۔“[199]

دیہی خواتین میں عوامی شعور بیدار کرنے کی مزید جہات

6. قانونی اور سماجی شعور کی بیداری

       پاکستان میں دیہی خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے قانونی حقوق سے لاعلم ہے، جس کی وجہ سے وہ وراثت، گھریلو تشدد، جبری شادی، اور ملازمت میں امتیازی سلوک جیسے مسائل کا سامنا کرتی ہیں۔ اگر خواتین کو قانونی حقوق اور ریاستی تحفظ کے قوانین سے آگاہ کیا جائے تو وہ ان قوانین کا مؤثر استعمال کر سکتی ہیں۔

اقدامات:

·     دیہی علاقوں میں لیگل ایڈ کیمپس قائم کیے جائیں، جہاں خواتین کو مفت قانونی مشورہ دیا جائے۔

·     ریڈیو، ٹی وی، اور سوشل میڈیا پر ایسے پروگرام نشر کیے جائیں جو خواتین کے حقوق اور قانونی تحفظ پر روشنی ڈالیں۔

·     مساجد، کمیونٹی سنٹرز اور اسکولز میں سیمینارز منعقد کیے جائیں تاکہ مقامی افراد میں قانونی شعور پیدا کیا جا سکے۔[200]

7. دیہی خواتین کے لیے ٹیکنالوجی تک رسائی

       ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے، لیکن دیہی خواتین کی ایک بڑی تعداد اب بھی ان سہولیات سے محروم ہے۔ اگر انہیں موبائل فونز، انٹرنیٹ، اور سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال کا شعور دیا جائے تو وہ تعلیم، روزگار، صحت، اور قانونی معلومات تک بہتر رسائی حاصل کر سکتی ہیں۔

اقدامات:

·     دیہی علاقوں میں ڈیجیٹل لٹریسی پروگرام متعارف کرائے جائیں تاکہ خواتین کو انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کے بنیادی استعمال کی تربیت دی جا سکے۔

·     خواتین کے لیے مفت یا کم قیمت انٹرنیٹ سہولیات فراہم کی جائیں۔

·     آن لائن کاروبار، فری لانسنگ، اور ای کامرس کی تربیت دی جائے تاکہ دیہی خواتین اپنے گھروں سے روزگار حاصل کر سکیں۔[201]

8. زراعت اور ماحولیات میں خواتین کا کردار

       دیہی خواتین زراعت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں، لیکن انہیں جدید زرعی ٹیکنالوجیز، موسمیاتی تبدیلی، اور پائیدار کھیتی باڑی کے اصولوں کے بارے میں کم معلومات ہوتی ہیں۔ اگر انہیں جدید زرعی تکنیکوں سے آگاہ کیا جائے تو وہ پیداوار میں اضافہ کر سکتی ہیں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے میں معاون ہو سکتی ہیں۔

اقدامات:

·     خواتین کسانوں کے لیے جدید زرعی تربیت کے مراکز قائم کیے جائیں۔

·     موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے متعلق آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ خواتین زراعت میں جدید طریقے اپنا سکیں۔

·     دیہی خواتین کو زراعت میں قرضوں، سبسڈی، اور حکومتی پالیسیوں کے بارے میں معلومات دی جائیں۔[202]

9. خواتین کی سیاسی شمولیت

       دیہی خواتین کی سیاسی شرکت بہت کم ہے، جس کی ایک بڑی وجہ صنفی امتیاز، تعلیم کی کمی، اور سماجی پابندیاں ہیں۔ اگر خواتین کو سیاست میں شمولیت کے فوائد اور ان کے ووٹ کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کیا جائے تو وہ زیادہ مؤثر طریقے سے اپنے حقوق کی نمائندگی کر سکتی ہیں۔

اقدامات:

·     خواتین کے لیے خصوصی ووٹر آگاہی مہمات چلائی جائیں۔

·     دیہی خواتین کو بلدیاتی انتخابات میں شرکت کی ترغیب دی جائے۔

·     خواتین کے سیاسی رہنماؤں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ مقامی سطح پر خواتین کے حقوق کی نمائندگی کر سکیں۔[203]

10. میڈیا اور این جی اوز کا کردار

       عوامی شعور بیداری کے لیے میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں کا کردار نہایت اہم ہے۔ یہ پلیٹ فارمز نہ صرف خواتین کے مسائل کو اجاگر کر سکتے ہیں بلکہ ان کے حل کے لیے عملی اقدامات بھی تجویز کر سکتے ہیں۔

اقدامات:

·     خواتین کے حقوق اور مسائل پر مبنی ٹی وی اور ریڈیو پروگرام نشر کیے جائیں۔

·     این جی اوز دیہی علاقوں میں تعلیمی اور قانونی آگاہی مہمات چلائیں۔

·     سوشل میڈیا پر دیہی خواتین کی کہانیاں اور کامیابی کی مثالیں شیئر کی جائیں تاکہ دیگر خواتین بھی حوصلہ افزائی حاصل کر سکیں۔[204]

دیہی خواتین کی آگاہی مہمات میں میڈیا، غیر سرکاری تنظیموں اور تعلیمی اداروں کا کردار

       دیہی خواتین میں شعور اجاگر کرنے کے لیے میڈیا، غیر سرکاری تنظیمیں اور تعلیمی ادارے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ مہمات خواتین کو ان کے حقوق، مواقع اور سماجی و معاشی ترقی کے بارے میں آگاہ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ درج ذیل میں ہر ایک کے کردار اور حکمت عملیوں کی تفصیل دی جا رہی ہے، ساتھ ہی شکاگو مینول آف اسٹائل کے مطابق اردو میں حوالہ جات بھی شامل کیے گئے ہیں۔

1. میڈیا کے ذریعے آگاہی مہمات

       میڈیا دیہی خواتین کی تعلیم، صحت، قانونی حقوق، اور معاشی خودمختاری کے بارے میں شعور بیدار کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

(الف) الیکٹرانک میڈیا (ٹی وی، ریڈیو)

       ”دیہی علاقوں میں ریڈیو ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ بجلی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے باوجود یہ آسانی سے قابل رسائی ہوتا ہے ۔[205]

       ”ٹی وی چینلز مختلف ڈرامے، دستاویزی فلمیں، اور ٹاک شوز نشر کرتے ہیں جو خواتین کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔“[206]

       ”حکومتی اور نجی نشریاتی ادارے زراعت، صحت، اور تعلیم کے متعلق خصوصی پروگرام نشر کرتے ہیں ۔“[207]

(ب) سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز

       ”موبائل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، یوٹیوب، اور واٹس ایپ کے ذریعے خواتین کو قانونی اور معاشرتی حقوق کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔“[208]

آن لائن کمیونٹیز اور ویبینارز کے ذریعے تربیتی سیشنز منعقد کیے جاتے ہیں۔“[209]

2. این جی اوز کے ذریعے آگاہی مہمات

       غیر سرکاری تنظیمیں دیہی خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف منصوبے چلاتی ہیں، جن میں صحت، تعلیم، ہنر مندی، اور صنفی مساوات کے حوالے سے آگاہی شامل ہے۔

(الف) تعلیمی اور تربیتی پروگرام

       مختلف NGOs جیسے "آگاہی"، "عورت فاؤنڈیشن"، اور "روشنی تنظیم" دیہی خواتین کے لیے تعلیمی پروگرام چلاتی ہیں۔“[210]

       ”خواتین کو ووکیشنل ٹریننگ اور کاروباری مہارتوں کی تربیت دی جاتی ہے۔“[211]

(ب) قانونی معاونت اور حقوق کی آگاہی

       NGOs خواتین کو جبری شادی، گھریلو تشدد، اور جائیداد کے حقوق کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں ۔“[212]

موبائل لیگل کلینکس کے ذریعے دیہی خواتین کو قانونی مدد دی جاتی ہے۔“[213]

(ج) صحت اور خاندانی بہبود کی مہمات

       ”مختلف تنظیمیں تولیدی صحت، ماں اور بچے کی دیکھ بھال، اور غذائی بہتری کے منصوبے چلاتی ہیں ۔“[214]

       ”مقامی سطح پر خواتین ہیلتھ ورکرز کے ذریعے طبی مشورے فراہم کیے جاتے ہیں ۔“[215]

3. تعلیمی اداروں کے ذریعے آگاہی مہمات

       دیہی خواتین میں تعلیم اور شعور اجاگر کرنے کے لیے اسکولز، کالجز، اور یونیورسٹیز مختلف اقدامات کرتی ہیں۔

(الف) خواندگی اور بنیادی تعلیم کے پروگرام

       ”حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے چلنے والے غیر رسمی تعلیمی مراکز دیہی خواتین کو تعلیم فراہم کرتے ہیں۔“[216]

بالغ خواتین کے لیے خصوصی تعلیمی منصوبے جیسے "نئی روشنی اسکیم" شروع کیے گئے ہیں۔“[217]

(ب) یونیورسٹیوں کی تحقیق اور فیلڈ ورک

       ”مختلف جامعات دیہی خواتین کے مسائل پر تحقیق کرتی ہیں اور ان کے حل کے لیے تجاویز پیش کرتی ہیں۔“[218]

طلبہ اور محققین دیہی علاقوں میں جا کر آگاہی سیشن منعقد کرتے ہیں ۔“[219]

(ج) تعلیمی مواد اور نصاب میں شمولیت

       ”تعلیمی نصاب میں خواتین کے حقوق، صحت، اور مساوات کے موضوعات شامل کیے جا رہے ہیں۔“[220]

دیہی خواتین میں آگاہی کے لیے مشترکہ اقدامات

       مختلف تنظیموں اور اداروں کے ذریعے دیہی خواتین میں آگاہی بڑھانے کے لیے کچھ مشترکہ اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ زیادہ وسیع پیمانے پر ان کے مسائل اور حقوق کی آگاہی ہو سکے۔ یہ اقدامات حکومتی پالیسیوں، میڈیا کی طاقت، اور این جی اوز کی مقامی سطح پر سرگرمیوں کو مؤثر طریقے سے یکجا کرتے ہیں۔

(الف) کمیونٹی کی سطح پر مشاورتی ورکشاپس

       ”دیہی خواتین کے مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے مقامی سطح پر ورکشاپس اور سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان ورکشاپس میں خواتین کو صحت، تعلیم، قانونی حقوق، اور اقتصادی خودمختاری کے موضوعات پر آگاہی دی جاتی ہے۔“[221]

       ”مقامی سطح پر کمیونٹی لیڈرز اور خواتین کے گروپوں کو ان مہمات میں شامل کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین تک رسائی حاصل کی جا سکے ۔“[222]

(ب) حکومت کی پالیسیوں کا اثر

       ”حکومتی سطح پر، وزارت خواتین کی ترقی نے مختلف اسکیموں اور پروگرامز کے ذریعے دیہی خواتین کو تعلیم، صحت، اور اقتصادی مواقع فراہم کرنے کی کوشش کی ہے ۔“[223]

       ”دیہی علاقوں میں چلائے جانے والے مخصوص پراجیکٹس جیسے کہ "نہایت ضروری خواتین کی مدد" اور "کسان خواتین کی ترقی" پروگرامز نے دیہی خواتین کے لیے نئے راستے کھولے ہیں۔“[224]

(ج) بین الاقوامی تنظیموں کا تعاون

       ”بین الاقوامی تنظیمیں بھی دیہی خواتین کے مسائل پر کام کر رہی ہیں، جیسے کہ "یو این ویمن" اور "ورلڈ بنک" نے خواتین کے حقوق اور ترقی کے حوالے سے متعدد منصوبے شروع کیے ہیں ۔“[225]

       ”ان تنظیموں کی مدد سے حکومت اور مقامی ادارے دیہی خواتین کے لیے فائدہ مند پالیسیوں کو نافذ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔“[226]

(د) میڈیا کی مشہوری حکمت عملی

       میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، کو خواتین کے حقوق کی آگاہی کے لیے ایک طاقتور ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ مقامی ٹی وی چینلز بھی مخصوص پروگرامز اور اشتہارات کے ذریعے خواتین کی حالت زار کو اجاگر کرتے ہیں ۔

       سوشل میڈیا کمپینز جیسے نے عالمی سطح پر خواتین کی حقوق کی حمایت بڑھائی ہے۔

5. تعلیمی اداروں کی طرف سے دیہی خواتین کی ترقی

       تعلیمی ادارے دیہی خواتین کی ترقی کے لیے خاص طور پر اہم ہیں کیونکہ ان اداروں میں تعلیم کے علاوہ ان کی شخصیت کی تعمیر اور سوشل سکلز کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔

(الف) تعلیمی نصاب کی تشکیل میں تبدیلی

       ”تعلیمی نصاب میں صنفی مساوات اور خواتین کے حقوق کو شامل کرنے کے ذریعے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں دیہی خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا جا رہا ہے ۔“[227]

       ”یہ تبدیلی نوجوان لڑکیوں کو ان کے حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ کرتی ہے اور انہیں آگے بڑھنے کے لیے ترغیب دیتی ہے ۔“[228]

(ب) دیہی علاقوں میں تعلیمی اداروں کے قیام کی ضرورت

       دیہی علاقوں میں مزید تعلیمی ادارے قائم کرنے سے خواتین کو تعلیم کے مواقع فراہم ہوں گے جو کہ ان کے معاشی اور سماجی اثرات کو بہتر بنانے میں مدد کرے گا۔

       اسکولوں اور کالجوں میں ایسی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جن میں خواتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ دیہی معاشرتی اور ثقافتی روایات سے باہر نکل کر اپنے حقوق اور ضروریات کے بارے میں آگاہ ہو سکیں ۔

دیہی خواتین میں آگاہی مہمات کی کامیابی کے عوامل اور چیلنجز

       دیہی خواتین میں آگاہی بڑھانے کے لیے کیے گئے مختلف اقدامات اور مہمات کی کامیابی کے لیے کچھ اہم عوامل اور چیلنجز موجود ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

(الف) کامیابی کے عوامل

1. مقامی سطح پر شمولیت اور تعاون

       ”کامیاب آگاہی مہمات میں مقامی کمیونٹی کی فعال شمولیت ضروری ہوتی ہے۔ دیہی خواتین کی زیادہ تر معلومات مقامی سطح پر ہی فراہم کی جا سکتی ہیں، جہاں مقامی زبان، ثقافت اور روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے مہمات چلائی جائیں۔ اگر مقامی کمیونٹی اور خواتین کے گروپوں کو آگاہی مہمات میں شامل کیا جائے، تو ان کی مؤثر پھیلاؤ اور کامیابی کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔“[229]

2. مقامی میڈیا کا استعمال

       ”دیہی علاقوں میں مقامی زبان میں مواد فراہم کرنے سے خواتین کی زیادہ تعداد تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ریڈیو، مقامی ٹی وی چینلز، اور دیہی علاقوں میں چلنے والی لائیو پروگرامز کے ذریعے خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ خواتین کے مسائل کو زیادہ بہتر طریقے سے اجاگر کرتے ہیں (خان، 2019، 45)۔“[230]

3. ڈیجیٹل میڈیا کی رسائی

       ”آج کل موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت نے دیہی خواتین تک پہنچنے کے نئے راستے کھولے ہیں۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی آگاہی مہمات، ویڈیوز، اور ویبینارز نے دیہی خواتین کے لیے نیا علم حاصل کرنے کے دروازے کھولے ہیں۔ موبائل ایپلی کیشنز اور مختصر پیغامات کے ذریعے بھی خواتین کو قانون، صحت اور تعلیم کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے ۔“[231]

(ب) چیلنجز

1. ثقافتی اور سماجی روایات

       دیہی علاقوں میں ثقافتی اور سماجی روایات بعض اوقات آگاہی مہمات کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ مخصوص معاشرتی اصول اور خاندانوں کی روایات خواتین کی آزادی اور ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی کو مشکل بنا دیتی ہیں ۔ ان چیلنجز کو حل کرنے کے لیے مقامی روایات کا احترام کرتے ہوئے آگاہی مہمات میں جدت لانا ضروری ہے۔[232]

2. تعلیمی کمی اور وسائل کی کمی

       ”دیہی علاقوں میں تعلیمی اداروں کی کمی اور تعلیمی معیار کی کمزوری خواتین کی آگاہی کے عمل کو سست کر دیتی ہے۔ تعلیمی نظام میں مناسب نصاب کی کمی، ناقص تعلیم کی فراہمی، اور وسائل کی کمی خواتین کے لیے آگاہی حاصل کرنا مشکل بنا دیتی ہے۔“[233]

3. قانونی معاونت کا فقدان

       ”دیہی علاقوں میں خواتین کو قانونی مدد اور مشورے فراہم کرنے کے وسائل محدود ہیں۔ خواتین کو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی تو دی جاتی ہے، مگر ان حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے قانونی معاونت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس کے لیے موبائل لیگل کلینکس اور خواتین کے لیے خصوصی قانونی مرکز قائم کرنا ضروری ہے۔“[234]

4. پالیسیوں میں تسلسل کی کمی

       ”حکومت کی طرف سے دیہی خواتین کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات اور پالیسیوں میں تسلسل کی کمی ایک اور اہم چیلنج ہے۔ اگر پالیسیوں میں تسلسل اور مناسب نگرانی نہ ہو تو ان کی افادیت محدود رہ جاتی ہے۔“[235]

7. دیہی خواتین کے لیے مستقبل کے امکانات

1. نوجوان نسل کی تعلیم

       ”نوجوان لڑکیوں کے لیے تعلیمی اسکیموں اور پروگرامز کو مزید مؤثر بنانے سے دیہی خواتین کے حقوق اور فلاح و بہبود میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ نوجوانوں کے لیے خاص طور پر ووکیشنل ٹریننگ پروگرامز اور بزنس مینجمنٹ کی کلاسز کا انعقاد کر کے خواتین کو خودمختار بنایا جا سکتا ہے۔“[236]

2. مقامی سطح پر حکومت کی شراکت داری

       ”دیہی خواتین کے مسائل کے حل کے لیے مقامی حکومتوں کا تعاون ضروری ہے۔ اگر مقامی حکومتیں این جی اوز اور تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر کام کریں تو دیہی خواتین تک رسائی اور آگاہی میں بہتری آ سکتی ہے ۔“[237]

3. ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال

       ”آج کے ڈیجیٹل دور میں، موبائل فونز، سوشل میڈیا اور دیگر ٹیکنالوجیز کے ذریعے خواتین کو زیادہ سے زیادہ آگاہی دی جا سکتی ہے۔ ان ٹیکنالوجیز کا استعمال کرنے سے خواتین اپنے حقوق، صحت اور تعلیم کے بارے میں جدید ترین معلومات حاصل کر سکتی ہیں ۔“[238]

4. قانونی اصلاحات اور سہولتیں

       ”دیہی خواتین کو قانونی مدد فراہم کرنے کے لیے موبائل لیگل کلینکس اور قانونی مشاورت کے مراکز کا قیام اہم ہو گا۔ اس کے علاوہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ خواتین اپنے حقوق کا مؤثر طریقے سے دفاع کر سکیں۔“[239]

 

 

 

 

 

 

 

 

ملخص مقالہ

       باب اول میں پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں خواتین، خصوصاً دیہی خواتین، مختلف سماجی اور اقتصادی مسائل کا سامنا کرتی ہیں۔ یہ باب دیہی خواتین کے حالات، ان کے معاشرتی اور اقتصادی کردار کا جائزہ لیتا ہے۔   دیہی خواتین پاکستان کی مجموعی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ وہ کھیتوں میں کام کرنے، گھریلو امور سرانجام دینے، اور مختلف دستکاریوں میں مہارت رکھنے کے باوجود اکثر نظر انداز کی جاتی ہیں۔دیہی خواتین زراعت، لائیو اسٹاک، اور گھریلو صنعتوں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی محنت ملکی معیشت میں نمایاں حصہ ڈالتی ہے، مگر انہیں اکثر مناسب معاوضہ اور مواقع نہیں ملتے۔دیہی خواتین کی زندگی سخت محنت اور مشکلات سے بھرپور ہوتی ہے۔ انہیں بنیادی سہولیات، جیسے تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

       باب دوم  میں مدیہی خواتین کو کئی سماجی و ثقافتی چیلنجز درپیش ہیں جو ان کی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔زیادہ تر دیہی خواتین کو تعلیمی مواقع نہیں ملتے۔ غربت، روایتی سوچ، اور تعلیمی اداروں کی عدم دستیابی ان کے تعلیمی سفر میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔صحت کی بنیادی سہولیات کی کمی، غذائی قلت، اور زچگی کے دوران طبی سہولیات کا فقدان دیہی خواتین کے اہم مسائل میں شامل ہیں۔دیہی علاقوں میں روایتی رسم و رواج خواتین کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ کم عمری کی شادی، جہیز کا بوجھ، اور صنفی امتیاز جیسے مسائل ان کی زندگی کو محدود کر دیتے ہیں۔دیہی خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے مختلف اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ انہیں مساوی حقوق اور ترقی کے مواقع مل سکیں۔

       باب سوم میں حکومت کو دیہی خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے بہتر تعلیمی اور صحت کی پالیسیاں متعارف کرانی چاہئیں۔ خواتین کے لیے مخصوص اسکالرشپ، ہنر مندی کے پروگرام، اور قانونی تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔غیر سرکاری تنظیمیں اور سرکاری ادارے دیہی ترقیاتی منصوبے متعارف کرا سکتے ہیں، جن میں خواتین کو خود مختار بنانے کے لیے قرضے، تربیت اور کاروباری مواقع فراہم کیے جائیں .خواتین کے حقوق اور تعلیم کے بارے میں شعور بیدار کرنا انتہائی ضروری ہے۔ میڈیا، تعلیمی ادارے، اور مقامی رہنما اس مہم میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

 

 

 

 

 

نتائج البحث

       پاکستان کی دیہی خواتین مختلف سماجی، اقتصادی اور ثقافتی مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔ اس تحقیق سے درج ذیل نتائج اخذ کیے گئے ہیں:

·     دیہی خواتین پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، خاص طور پر زراعت اور گھریلو صنعتوں میں۔

·     ان کی محنت کے باوجود انہیں مالی، تعلیمی اور صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں۔

·     ان کا طرز زندگی مشکلات سے بھرپور ہے، جہاں وہ محدود وسائل کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

·     غربت، پدرسری نظام اور تعلیمی اداروں کی کمی دیہی خواتین کی تعلیم میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔

·     صحت کی سہولیات تک محدود رسائی، زچگی کے دوران پیچیدگیاں، اور غذائی قلت دیہی خواتین کی صحت پر منفی اثر ڈال رہی ہیں۔

·     قدامت پسند رسم و رواج، جیسے کم عمری کی شادی اور جہیز کا رواج، خواتین کی ترقی کو محدود کرتے ہیں۔

·     دیہی خواتین کی تعلیم، صحت اور معاشی ترقی کے لیے موثر حکومتی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔

·     خود کفالت کے لیے چھوٹے قرضے، فنی تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

·     میڈیا، تعلیمی اداروں اور مقامی رہنماؤں کی مدد سے خواتین کے حقوق اور تعلیم کے بارے میں شعور بیدار کیا جائے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

سفارشات

       دیہی خواتین کو درپیش سماجی، تعلیمی، معاشی اور صحت سے متعلق چیلنجز کے حل کے لیے درج ذیل سفارشات پیش کی جاتی ہیں:

  • حکومت کو چاہیے کہ دیہی خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے خصوصی پالیسیز مرتب کرے، جن میں تعلیم، صحت اور معاشی خودمختاری کو مرکزی حیثیت دی جائے۔
  • پسماندہ علاقوں میں خواتین کے خلاف تشدد اور جبری رسم و رواج کے خاتمے کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر مؤثر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
  • دیہی خواتین کو قانونی معاونت فراہم کرنے کے لیے مفت لیگل ایڈ سینٹرز قائم کیے جائیں تاکہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی اقدامات اٹھا سکیں۔
  • غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) اور مقامی اداروں کو دیہی خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے متحرک کیا جائے۔
  • خواتین کے لیے مخصوص تعلیمی ادارے اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کا قیام کیا جائے تاکہ وہ ہنر سیکھ کر خود کفیل بن سکیں۔
  • دیہی علاقوں میں خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے نان فارمل ایجوکیشن سینٹرز قائم کیے جائیں تاکہ وہ اپنی مصروفیات کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کر سکیں۔
  • لڑکیوں کی ابتدائی تعلیم کے فروغ کے لیے والدین اور کمیونٹی لیڈرز کو آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانے میں دلچسپی لیں۔
  • مساجد، مدارس، اور کمیونٹی سینٹرز کے ذریعے خواتین کو درپیش سماجی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں آگاہی دی جائے۔
  • دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے بنیادی صحت کی سہولیات اور زچہ و بچہ مراکز کی تعداد بڑھائی جائے۔
  • صحت و صفائی کے حوالے سے آگاہی پروگرامز متعارف کروائے جائیں تاکہ خواتین کو بہتر طرزِ زندگی اپنانے کی ترغیب دی جا سکے۔
  • خواتین کو زرعی ٹیکنالوجی اور جدید طریقۂ کاشتکاری سے روشناس کروانے کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے۔
  • دیہی خواتین کو چھوٹے قرضے (Microfinance) فراہم کیے جائیں تاکہ وہ چھوٹے کاروبار اور خود روزگاری کے مواقع حاصل کر سکیں۔
  • دیہی خواتین کے لیے خود کفالت کے منصوبے (Self-Sufficiency Programs) متعارف کروائے جائیں، جن میں زراعت، دستکاری، اور چھوٹے کاروباروں کی ترقی کو فروغ دیا جائے۔
  • خواتین کے لیے خاص طور پر ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ وہ تعلیمی اور معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔
  • میڈیا (ریڈیو، ٹی وی، سوشل میڈیا) کو مؤثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے دیہی خواتین میں تعلیم اور بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے۔
  • کم عمری کی شادی، جہیز، اور دیگر مضر رسومات کے خلاف شعور بیدار کرنے کے لیے خصوصی مہمات چلائی جائیں۔
  • دیہی خواتین کے لیے لیڈرشپ اور خود مختاری کے حوالے سے ورکشاپس اور ٹریننگ پروگرام منعقد کیے جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنا سکیں۔
  • کمیونٹی سینٹرز قائم کیے جائیں جہاں خواتین سماجی و ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔

       یہ سفارشات دیہی خواتین کے مسائل کو کم کرنے اور انہیں ایک بہتر، خود مختار اور خوشحال زندگی فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مصادر و مراجع

·     القرآن الکریم

·     احمد، سارہ، دیہی علاقوں میں خواتین کی صحت: چیلنجز اور حل، لاہور: ہیلتھ پریس، 2020۔

·     احمد، زینب، پاکستان میں دیہی خواتین میں زمین کی ملکیت کے رجحانات، لاہور: وہنگار ڈیکس، 2013۔

·     احمد، زینب، پاکستان میں دیہی خواتین کی جائیداد کے حقوق، اسلام آباد: نیشنل پبلک ریسرچ، 2019۔

·     امین، زینب، پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل: ایک سماجی المیہ، اسلام آباد: انسٹیٹیوٹ فار سوشل ریسرچ، 2020۔

·     امین، زینب، غیرت کے نام پر قتل: پاکستان کا ایک سماجی مسئلہ، اسلام آباد: انسٹیٹیوٹ فار سوشل ریسرچ، 2020۔

·     بانو، عائشہ، دہی کمیونٹیز میں صفائی اور حفظان صحت، کراچی: کلین واٹر فاؤنڈیشن، 2019۔

·     بانو، ناہید، پاکستان کے مذہبی خاندانوں کی سماجی ملکیت، میری سوشیالوجیکل لو جیکل ریویو، 2017۔

·     بلیک، جینیفر، مواصلاتی ذرائع اور دیہی ترقی، شگاگو: جنرل آف کمیونیکیشن اسٹڈیز، 2022۔

·     براؤن، ایمیلی، مائکرو فائنانس کے ذریعے معاشی خود مختاری، جنرل آف رول ڈیولپمنٹ، شکاگو پریس، 2012۔

·     بلوچ، فرزانہ، دیہی خواتین اور سیاست میں شرکت، کوئٹہ: بلوچستان اسٹڈی سینٹر، 2022۔

·     بلوچ، فرزانہ، خواتین اور سیاست میں شمولیت: دیہی علاقوں کا تجزیہ، کوئٹہ: بلوچستان اسٹڈی سینٹر، 2022۔

·     فاروق، جمیل، دہی خواتین کے تولیدی صحت کے حقوق، اسلام آباد: نیشنل ہیلتھ انسٹیوٹ، 2018۔

·     فاطمہ زہرا، ثقافتی روایات اور خواتین کی تعلیم، سماجی ترقی کا تجزیہ، 2023۔

·     فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO)، پاکستان میں دیہی خواتین کا زراعت میں کردار، روم: FAO، 2021۔

·     فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO)، زرعی ترقی کی عالمی رپورٹ 2022، روم: ایف اے او، 2022۔

·     ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، رپورٹ برائے انسانی حقوق 2020، لاہور: HRCP، 2020۔

·     ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، سالانہ انسانی حقوق رپورٹ 2023، لاہور: HRCP، 2023۔

·     ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، انسانی حقوق کا تجزیاتی جائزہ 2023، لاہور: HRCP، 2023۔

·     خان، عزیز، پاکستان کی دیہی خواتین اور زمین کی ملکیت: ایک مطالعہ، لاہور: پنجاب یونیورسٹی پریس، 2019۔

·     خان، علی، زچگی کی اموات اور دیہی طبی سہولیات تک رسائی، پشاور: میڈیکل ریسرچ پبلیکیشن، 2021۔

·     جانسن، ایبیکا، تعلیمی اسکالرشپس اور خواتین کی ترقی، شگاگو: ایجوکیشنل فاؤنڈیشن، 2019۔

·     جانسن، مارک، جدید زراعت اور خواتین کسان، ایگریکلچرل سٹڈیز، شکاگو پبلیکیشنز، 2018۔

·     جانی، عزیز، پاکستان کی دیہی خواتین اور ثقافتی چیلنجز، لاہور: پنجاب یونیورسٹی پریس، 2019۔

·     جیکسن، ایملی، سوشل نیٹ ورکنگ اور خواتین کی ترقی، شگاگو: مینویل آف اف سوشیالوجی، 2020۔

·     جیمز، سوفیا، ای کامرس اور خواتین کی کاروباری ترقی، شگاگو: ٹیکنالوجی جنرل، 2020۔

·     حسنین، شکیل، ماحولیاتی تبدیلی اور دیہی خواتین کا طرز زندگی، کراچی: گرین ارتھ پبلیکیشنز، 2022۔

·     حسنین، شکیل، ماحولیاتی تبدیلی اور دیہی خواتین پر اس کے اثرات، کراچی: ماحولیاتی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، 2022۔

·     ہنری، یال، کوآپریٹو تنظیموں کے ذریعے دیہی خواتین کی ترقی، شگاگو: پریس آف سوشل اکنامکس، 2018۔

·     ہنٹ، چارلس، کم لاگت توانائی اور دیہی ترقی، شگاگو: انرجی ریسرچ جنرل، 2022۔

·     کارٹر، جین، دیہی خواتین کے حقوق اور قانونی مدد، شگاگو: سوشیالوجیکل جنرل، 2020۔

·     کلارک، ایماری، سائیکلنگ اور دیہی خواتین کی دستکاری، شگاگو: انوائرمنٹل اینڈ کری ایٹو جنرل، 2019۔

·     کلارک، سوزن، دیہی خواتین کے لیے ہنر کی ترقی، شگاگو: کمیونٹی ڈیولپمنٹ رپورٹ، 2020۔

·     لی، اینا، مائکرو کریڈٹ اور دیہی خواتین کی ترقی، شگاگو: فنائنشیل اسٹڈیز، 2019۔

·     مارٹن، ہنری، گھریلو منصوبے اور خواتین کی ترقی، شگاگو: انرجی ریویو، 2020۔

·     مارٹن، کیرن، خاندانی منصوبہ بندی اور خواتین کی صحت، شگاگو: مینول آف میڈیکل اسٹڈیز، 2021۔

·     مارٹن، سوفیا، دیہی مصنوعات کی برانڈنگ اور کاروباری مواقع، شگاگو: بزنس ریویو، 2020۔

·     ملر، کیٹ، دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کی رسائی بہتر بنانا، شگاگو: مینویل آف پبلک ہیلتھ، 2021۔

·     نیلسن، کیتھرین، خواتین کے کھیل اور صحت، شگاگو: جنرل آف سپورٹس اینڈ میری پاس ویکس، 2021۔

·     پاکستان، وزارتِ خزانہ، پاکستان اکنامک سروے 2022، اسلام آباد: حکومتِ پاکستان، 2022۔

·     پاکستان ڈیموگرافک ہیلتھ سروے، زچگی اور بچوں کی صحت، اسلام آباد: ادارہ برائے اعداد و شمار، 2018۔

·     پاکستان ڈیموگرافک ہیلتھ سروے، پاکستان میں زچگی اور صحت کے مسائل کا تجزیہ، اسلام آباد: ادارہ برائے اعداد و شمار، 2018۔

·     پاکستان سوشیالوجیکل ریویو، لاہور: سوشیالوجیکل ایسوسی ایشن آف پاکستان، 2021۔

·     ریڈ، اینڈ ریو، سماجی رکاوٹوں کا خاتمہ اور خواتین کی ترقی، سوشیالوجیکل اسٹڈیز، شکاگو پبلیکیشنز، 2019۔

·     رفیق، کامران، دیہی خواتین کی ذہنی صحت: چیلنجز اور تجاویز، لاہور: مینٹل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ، 2022۔

·     راہنس، سارہ، ماحولیاتی تحفظ اور دیہی خواتین کے شمولیت، شگاگو: جنرل آف انوائرمنٹل اسٹڈیز، 2021۔

·     سمیرا خان، صنفی مساوات اور دیہی تعلیم، لاہور: تعلیمی پبلیشرز، 2021۔

·     اسمتھ، ہ ر ا، ریسورس سینٹرز اور خواتین کی خود مختاری، شکاگو: کمیونٹی ڈیولپمنٹ جنرل، 2021۔

·     اسمتھ، لیوک، تعلیمی بالغاں اور خواتین کی خود مختاری، شگاگو: ایجوکیشن ریویو، 2021۔

·     تھامسن، لیزا، ثقافت اور دیہی خواتین کی خود مختاری، شگاگو: جرنل آف کلچرل اسٹڈیز، 2019۔

·     یو این ڈی پی، پاکستان میں انسانی ترقی رپورٹ 2022، نیویارک: یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام، 2022۔

·     ورلڈ بینک، پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم: ایک چیلنج، واشنگٹن ڈی سی: ورلڈ بینک گروپ، 2021۔

·     ورلڈ بینک، پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے مواقع، واشنگٹن ڈی سی: ورلڈ بینک گروپ، 2021۔

·     عالمی بینک، دیہی خواتین کو بااختیار بنانا: پاکستان میں مواقع اور چیلنجز، اسلام آباد: عالمی بینک، 2019۔

·     عالمی بینک، دیہی خواتین کو بااختیار بنانا: پاکستان میں مواقع اور چیلنجز، واشنگٹن ڈی سی: عالمی بینک، 2019۔

·     عالمی بینک، سماجی و اقتصادی ترقی میں خواتین کا کردار، واشنگٹن ڈی سی: عالمی بینک، 2021۔

·     یونیسکو، پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواندگی کی شرح، پیرس: یونیسکو، 2021۔

·     یونیسکو، تعلیم، ثقافت اور ترقی کی عالمی رپورٹ، پیرس: یونیسکو، 2020۔



[1] ورلڈ بینک، پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم: ایک چیلنج، واشنگٹن ڈی سی: ورلڈ بینک گروپ، 2021، ج:1، ص:25۔

[2] پاکستان ڈیموگرافک ہیلتھ سروے، پاکستان میں زچگی اور صحت کے مسائل کا تجزیہ، اسلام آباد: ادارہ برائے اعداد و شمار، 2018، ج:2، ص:41۔

[3] خان، عزیز، پاکستان کی دیہی خواتین اور زمین کی ملکیت: ایک مطالعہ، لاہور: پنجاب یونیورسٹی پریس، 2019، ج:1، ص:67۔

[4] امین، زینب، پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل: ایک سماجی المیہ، اسلام آباد: انسٹیٹیوٹ فار سوشل ریسرچ، 2020، ج:2، ص:89۔

[5] بلوچ، فرزانہ، دیہی خواتین اور سیاست میں شرکت، کوئٹہ: بلوچستان اسٹڈی سینٹر، 2022، ج:1، ص:34۔

[6] عبداللہ، محمد، پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواتین کے حقوق: ثقافتی رکاوٹوں کا جائزہ، کراچی: یونیورسٹی پریس، 2019، ج:3، ص:52۔

[7] جانی، عزیز، پاکستان کی دیہی خواتین اور ثقافتی چیلنجز، لاہور: پنجاب یونیورسٹی پریس، 2019، ج:2، ص:60۔

[8] امین، زینب، غیرت کے نام پر قتل: پاکستان کا ایک سماجی مسئلہ، اسلام آباد: انسٹیٹیوٹ فار سوشل ریسرچ، 2020، ج:1، ص:77۔

[9] ورلڈ بینک، پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے مواقع، واشنگٹن ڈی سی: ورلڈ بینک گروپ، 2021، ج:2، ص:38۔

[10] علی، فاطمہ، پاکستان میں خواتین کی معاشی خود مختاری، کراچی: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2018، ج:1، ص:91۔

[11] پاکستان ڈیموگرافک ہیلتھ سروے، زچگی اور بچوں کی صحت، اسلام آباد: ادارہ برائے اعداد و شمار، 2018، ج:3، ص:56۔

[12] بلوچ، فرزانہ، خواتین اور سیاست میں شمولیت: دیہی علاقوں کا تجزیہ، کوئٹہ: بلوچستان اسٹڈی سینٹر، 2022، ج:2، ص:69۔

[13] پاکستان، وزارتِ خزانہ، پاکستان اکنامک سروے 2022، اسلام آباد: حکومتِ پاکستان، 2022، ص: 85۔

[14] عالمی بینک، سماجی و اقتصادی ترقی میں خواتین کا کردار، واشنگٹن ڈی سی: عالمی بینک، 2021، ص: 92۔

[15] یونیسکو، تعلیم، ثقافت اور ترقی کی عالمی رپورٹ، پیرس: یونیسکو، 2020، ص: 67۔

[16] پاکستان، وزارتِ خزانہ، پاکستان اکنامک سروے 2022، اسلام آباد: حکومتِ پاکستان، 2022، ص: 85۔

[17] عالمی بینک، سماجی و اقتصادی ترقی میں خواتین کا کردار، واشنگٹن ڈی سی: عالمی بینک، 2021، ص: 92۔

[18] ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، سالانہ انسانی حقوق رپورٹ 2023، لاہور: HRCP، 2023، ص: 45۔

[19] عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (FAO)، زرعی ترقی کی عالمی رپورٹ 2022، روم: ایف اے او، 2022، ص: 78۔

[20] پاکستان ڈیولپمنٹ ریویو، اسلام آباد: پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس، 2021، ص: 123۔

[21] ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، انسانی حقوق کا تجزیاتی جائزہ 2023، لاہور: HRCP، 2023، ص: 15۔

[22] عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (FAO)، زرعی ترقی کی عالمی رپورٹ 2022، روم: ایف اے او، 2022، ص: 78۔

[23] ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، رپورٹ برائے انسانی حقوق 2020، لاہور: HRCP، 2020، ص: 45۔

[24] پاکستان ڈیولپمنٹ ریویو، اسلام آباد: پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس، 2021، ص: 123۔

[25] عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (FAO)، زرعی ترقی کی عالمی رپورٹ 2022، روم: ایف اے او، 2022، ص: 78۔

[26] پاکستان ڈیولپمنٹ ریویو، اسلام آباد: پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس، 2021، ص: 123۔

[27] ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، رپورٹ برائے انسانی حقوق 2023، لاہور: HRCP، 2023، ص: 45۔

[28] یو این ڈی پی، پاکستان میں انسانی ترقی رپورٹ 2022، نیویارک: یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام، 2022، ص: 89۔

[29] پاکستان سوشیالوجیکل ریویو، لاہور: سوشیالوجیکل ایسوسی ایشن آف پاکستان، 2021، ص: 142۔

[30] ایشیائی ترقیاتی بینک، ترقیاتی جائزہ رپورٹ: پاکستان 2023، منیلا: ایشین ڈویلپمنٹ بینک، 2023، ص: 105۔

[31] پاکستان سوشیالوجیکل ریویو، لاہور: سوشیالوجیکل ایسوسی ایشن آف پاکستان، 2021، ص: 142۔

[32] میڈیا اسٹڈیز جنرل، اسلام آباد: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، 2023، ص: 6۔

[33] فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO)، پاکستان میں دیہی خواتین کا زراعت میں کردار، روم: FAO، 2021۔

[34] اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام (UNDP)، پاکستان میں لائیو سٹاک اور دیہی خواتین، نیویارک: UNDP، 2020۔

[35] عالمی بینک، دیہی خواتین کو بااختیار بنانا: پاکستان میں مواقع اور چیلنجز، واشنگٹن ڈی سی: عالمی بینک، 2019۔

[36] یونیسکو، پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواندگی کی شرح، پیرس: یونیسکو، 2021، ج: 1، ص: 78۔

[37] عالمی بینک، دیہی خواتین کو بااختیار بنانا: پاکستان میں مواقع اور چیلنجز، اسلام آباد: عالمی بینک، 2019، ج: 2، ص: 112۔

[38] بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP)، سالانہ رپورٹ، اسلام آباد: حکومتِ پاکستان، 2022، ج: 1، ص: 66۔

[39] فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO)، پاکستان میں دیہی خواتین کا زراعت میں کردار، روم: FAO، 2021، ج: 1، ص: 45۔

[40] بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (ILO)، پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواتین کی مزدوری میں شرکت، جنیوا: ILO، 2022، ج: 4، ص: 134۔

[41] احمد، زینب، پاکستان میں دیہی خواتین میں زمین کی ملکیت کے رجحانات، لاہور: وہنگار ڈیکس، 2013، ج: 1، ص: 98۔

[42] بانو، ناہید، پاکستان کے مذہبی خاندانوں کی سماجی ملکیت، میری سوشیالوجیکل لو جیکل ریویو، 12 شمارہ، 2017، ج: 2، ص: 45۔

[43] حسنین، شکیل، ماحولیاتی تبدیلی اور دیہی خواتین کا طرز زندگی، کراچی: گرین ارتھ پبلیکیشنز، 2022، ج: 3، ص: 77۔

[44] احمد، زینب، پاکستان میں دیہی خواتین میں زمین کی ملکیت کے رجحانات، لاہور: وہنگار ڈیکس، 2013، ج: 1، ص: 98۔

[45] بانو، ناہید، پاکستان کے مذہبی خاندانوں کی سماجی ملکیت، میری سوشیالوجیکل لو جیکل ریویو، 12 شمارہ، 2017، ج: 2، ص: 45۔

[46] حسنین، شکیل، ماحولیاتی تبدیلی اور دیہی خواتین کا طرز زندگی، کراچی: گرین ارتھ پبلیکیشنز، 2022، ج: 3، ص: 77۔

[47] علی، شاہدہ, "دیہی خواتین کی زراعت میں شراکت", زرعی جرنل, 16 شمارہ 2 (2018),ص: 80-95۔

[48] فاطمہ، سدیہ, "پاکستان میں دیہی خواتین کے صحت کے مسائل", جنرل اف ہیلتھ اسٹڈیز, 20 شمارہ 4 (2021),ص: 70-85۔

[49] احمد، زینب، پاکستان میں دیہی خواتین کی جائیداد کے حقوق، اسلام آباد: نیشنل پبلک ریسرچ، 2019، ج: 1، ص: 43۔

[50] حسنین، شکیل، ماحولیاتی تبدیلی اور دیہی خواتین پر اس کے اثرات، کراچی: ماحولیاتی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، 2022، ج: 3، ص: 59۔

[51] استھ، جان، دیہی تعلیم اور خواتین کی باختیاری، شکاگو: جنرل آف ایجوکیشن، 2020، ج: 45، شمارہ 3، ص: 77۔

[52] براؤن، ایمیلی، مائکرو فائنانس کے ذریعے معاشی خود مختاری، جنرل اف رول ڈیولپمنٹ، شکاگو پریس، 2012، ج: 2، ص: 89۔

[53] ملر، کیٹ، دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کی رسائی بہتر بنانا، شگاگو: مینویل آف پبلک ہیلتھ، 2021، ج: 5، ص: 112۔

[54] جانسن، مارک، جدید زراعت اور خواتین کسان، ایگریکلچرل سٹڈیز، شکاگو پبلیکیشنز، 2018، ج: 3، ص: 65۔

[55] کلارک، سوزن، دیہی خواتین کے لیے ہنر کی ترقی، شگاگو: کمیونٹی ڈیولپمنٹ رپورٹ، 2020، ج: 1، ص: 57۔

[56] راہنس، سارہ، ماحولیاتی تحفظ اور دیہی خواتین کے شمولیت، شگاگو: جنرل اف انوائرمنٹل اسٹڈیز، 2021، ج: 6، ص: 90۔

[57] واک، جیمز، دیہی علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی، پبلک ہیلتھ ریسرچ، شگاگو پریس، 2020، ج: 4، ص: 74۔

[58] ریڈ، اینڈ ریو، سماجی رکاوٹوں کا خاتمہ اور خواتین کی ترقی، سوشیالوجیکل اسٹڈیز، شکاگو پبلیکیشنز، 2019، ج: 2، ص: 45۔

[59] مارٹن، کیرن، خاندانی منصوبہ بندی اور خواتین کی صحت، شگاگو: مینول آف میڈیکل اسٹڈیز، 2021، ج: 3، ص: 101۔

[60] بلیک، جینیفر، مواصلاتی ذرائع اور دیہی ترقی، شگاگو: جنرل اف کمیونیکیشن اسٹڈیز، 2022، ج: 5، ص: 120۔

[61] جانسن، ایمی، نوجوان لڑکیوں کی تعلیم اور سماجی تبدیلی، شگاگو: جنرل آف ایجوکیشن ریفارم، 2020، ج: 4، ص: 55۔

[62] ہنری، یال، کوآپریٹو تنظیموں کے ذریعے دیہی خواتین کی ترقی، شگاگو: پریس اف سوشل اکنامکس، 2018، ج: 2، ص: 81۔

[63] نیلسن، کیتھرین، خواتین کے کھیل اور صحت، شگاگو: جنرل آف سپورٹس اینڈ میری پاس ویکس، 2021، ج: 6، ص: 34۔

[64] تھامسن، لیزا، ثقافت اور دیہی خواتین کی خود مختاری، شگاگو: جرنل آف کلچرل اسٹڈیز، 2019، ج: 3، ص: 101۔

[65] گرین، پیٹر، موسمیاتی تبدیلی اور دیہی خواتین کا کردار، شگاگو: انوائرمنٹل ریسرچ، 2020، ج: 4، ص: 72۔

[66] ریجرڈز، این، دیہی علاقوں میں ٹرانسپورٹ اور خواتین کی ترقی، شگاگو: جنرل اف ٹرانسپورٹیشن اسٹڈیز، 2021، ج: 2، ص: 105۔

[67] ریجرڈز، این، دیہی علاقوں میں ٹرانسپورٹ اور خواتین کی ترقی، شگاگو: جنرل اف ٹرانسپورٹیشن اسٹڈیز، 2019، ج: 2، ص: 105۔

[68] اسمتھ، لیوک، تعلیمی بالغاں اور خواتین کی خود مختاری، شکاگو: ایجوکیشن ریویو، 2021، ج: 3، ص: 88۔

[69] ہنٹ، چارلس، کم لاگت توانائی اور دیہی ترقی، شگاگو: انرجی ریسرچ جنرل، 2022، ج: 5، ص: 72۔

[70] جیمز، سوفیا، ای کامرس اور خواتین کی کاروباری ترقی، شگاگو: ٹیکنالوجی جنرل، 2020، ج: 2، ص: 48۔

[71] جانسن، ایبیکا، تعلیمی اسکالرشپس اور خواتین کی ترقی، شگاگو: ایجوکیشنل فاؤنڈیشن، 2019، ج: 3، ص: 62۔

[72] اسمتھ، لیوک، تعلیمی بالغاں اور خواتین کی خود مختاری، شکاگو: ایجوکیشن ریویو، 2021، ج: 3، ص: 88۔

[73] کارٹر، جین، دیہی خواتین کے حقوق اور قانونی مدد، شگاگو: سوشیالوجیکل جنرل، 2020، ج: 4، ص: 76۔

[74] ٹیلر، ڈیوڈ، کوآپریٹو زراعت اور دیہی خواتین کی خود مختاری، شگاگو: ایگریکلچرل جنرل، 2018، ج: 2، ص: 95۔

[75]مارٹن، ہنری، گھریلو منصوبے اور خواتین کی ترقی، شگاگو: انرجی ریویو، 2020، ج: 3، ص: 61۔

[76] لی، اینا، مائکرو کریڈٹ اور دیہی خواتین کی ترقی، شگاگو: فنائنشیل اسٹڈیز، 2019، ج: 4، ص: 58۔

[77] ہاورڈ، سوزن، زراعت میں جدیدیت اور خواتین، شگاگو: مینول اف ایگریکلچرل انوویشن، 2021، ج: 3، ص: 102۔

[78] مارٹن، سوفیا، دیہی مصنوعات کی برانڈنگ اور کاروباری مواقع، شگاگو: بزنس ریویو، 2020، ج: 5، ص: 72۔

[79] اسمتھ، ہ ر ا، ریسورس سینٹرز اور خواتین کی خود مختاری، شکاگو: کمیونٹی ڈیولپمنٹ جنرل، 2021، ج: 4، ص: 83۔

[80] کلارک، ایماری، سائیکلنگ اور دیہی خواتین کی دستکاری، شگاگو: انوائرمنٹل اینڈ کری ایٹو جنرل، 2019، ج: 2، ص: 115۔

[81] جیکسن، ایملی، سوشل نیٹ ورکنگ اور خواتین کی ترقی، شگاگو: مینویل آف اف سوشیالوجی، 2020، ج: 5، ص: 80۔

[82] محمد علی، "دیہی خواتین کی تعلیم کے مسائل"، پاکستانی تعلیمی جرنل،شمارہ 4 ،2022، ج: 12، ص: 45-46۔

[83] سمیرا خان، صنفی مساوات اور دیہی تعلیم،لاہور: تعلیمی پبلیشرز، 2021،ص: 78۔

[84] فاطمہ زہرا، "ثقافتی روایات اور خواتین کی تعلیم"، سماجی ترقی کا تجزیہ،شمارہ 3 ،2023 ،ج: 15، ،ص: 34۔

[85] محمد زاہد، "دیہی خواتین اور معاشی دباؤ"، معاشرتی تحقیق کا جائزہ، شمارہ 2 ،2021، ج: 10،ص: 55۔

[86] زاہدہ پروین، "تعلیمی پالیسی میں دیہی خواتین کے مسائل"، تعلیمی ترقی کا مطالعہ،شمارہ 1 ،2020، ج: 5،ص: 12۔

[87] خان، علی۔ زچگی کی اموات اور دیہی طبی سہولیات تک رسائی۔ پشاور: میڈیکل ریسرچ پبلیکیشن، 2021,جلد 3، ص 52۔

[88] احمد، سارہ۔ دیہی علاقوں میں خواتین کی صحت: چیلنجز اور حل۔ لاہور: ہیلتھ پریس، 2020, جلد 4، ص 61۔

[89] بانو، عائشہ۔ دہی کمیونٹیز میں صفائی اور حفظان صحت۔ کراچی: کلین واٹر فاؤنڈیشن، 2019, جلد 2، ص 47۔

[90] فاروق، جمیل۔ دہی خواتین کے تولیدی صحت کے حقوق۔ اسلام آباد: نیشنل ہیلتھ انسٹیوٹ، 2018,جلد 1، ص 59۔

[91] رفیق، کامران۔ دیہی خواتین کی ذہنی صحت: چیلنجز اور تجاویز۔ لاہور: مینٹل ہیلتھ انسٹیوٹ، 2022، جلد 6، ص 71۔

[92] حسن، زبیر۔ ماحولیاتی عوامل اور خواتین کی صحت۔ کراچی: انوائرمنٹل ریسرچ سینٹر، 2021، جلد 5، ص 66۔

[93] عالمی ادارہ صحت (WHO)۔ دیہی علاقوں میں صحت کے مسائل۔ جنیوا: عالمی ادارہ صحت، 2023،جلد 7، ص 64۔

[94] پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن۔ میڈیکل ریسرچ کی رپورٹ۔ کراچی: پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، 2022، جلد 11، ص 38۔

[95] ورلڈ بینک۔ پاکستان میں ترقیاتی پروگرام۔ واشنگٹن ڈی سی: ورلڈ بینک، 2021،جلد 3، ص 123۔

[96] نیشنل ہیلتھ سروے۔ صحت کے اعداد و شمار۔ اسلام آباد: وزارت صحت، 2023، جلد 12، ص 56۔

[97] یونیسیف۔ بچوں کی صحت کی رپورٹ۔ نیویارک: یونیسیف، 2022،جلد 9، ص 72۔

[98] نیشنل ویکسینیشن رپورٹ۔ ویکسینیشن کے اعداد و شمار۔ اسلام آباد: قومی ادارہ برائے صحت، 2023، جلد 5، ص 33۔

[99] انڈین پبلک ہیلتھ ایسوسی ایشن۔ صحت کی رپورٹ۔ نئی دہلی: انڈین پبلک ہیلتھ ایسوسی ایشن، 2021، جلد 18، ص 88۔

[100] امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن۔ میڈیکل تحقیق کی رپورٹ۔ واشنگٹن ڈی سی: امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن، 2023،جلد 9، ص 84۔

[101] عالمی اقتصادی فارم۔ معاشی ترقی کی رپورٹ۔ جنیوا: عالمی اقتصادی فارم، 2022، جلد 7، ص 102۔

[102] اقوام متحدہ. دیہی خواتین کے مسائل اور ان کے حل پر رپورٹ. خواتین کی رپورٹ، 2023، ج:1، ص:15۔

[103] یونیسف. کم عمری کی شادی اور اس کے اثرات پر تفصیلی رپورٹ 2020، ج:1، ص:23۔

[104] عالمی بینک. دیہی خواتین کی اقتصادی حالت اور ان کے مسائل پر تحقیقی مطالعہ 2022، ج:2، ص:10۔

[105] یونیسف،کم عمری کی شادی اور اس کے اثرات پر تفصیلی رپورٹ،2020، ج:1، ص:23۔

[106] "دیہی خواتین پر سماجی دباؤ اور ان کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر تحقیقی مطالعہ," 2021، ج:1، ص:31۔

[107] اقوام متحدہ، دیہی خواتین کے مسائل اور ان کے حل پر رپورٹ, خواتین کی رپورٹ، 2023، ج:1، ص:15۔

[108] قومی کمیشن برائے خواتین، پاکستان دیہی خواتین کے حقوق پر رپورٹ. 2023، ج:1، ص:8۔

[109] ہیومن رائٹس واچ، دیہی خواتین پر سماجی دباؤ اور ان کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر تحقیق، 2021، ج:1، ص:28۔

[110] اقوام متحدہ کی خواتین، دیہی خواتین کے مسائل اور ان کے حل پر رپورٹ، خواتین کی رپورٹ 2023، ج:1، ص:15۔

[111] قومی کمیشن برائے خواتین، پاکستان، دیہی خواتین کے حقوق پر رپورٹ، 2023، ج:1، ص:8۔

[112] "دیہی خواتین پر سماجی دباؤ اور ان کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر تحقیقی مطالعہ"، 2021، ج:1، ص:31۔

[113] عالمی بینک، دیہی خواتین کی اقتصادی حالت اور ان کے مسائل پر تحقیقی مطالعہ، 2022، ج:2، ص:10۔

[114] اقوام متحدہ کی خواتین، دیہی خواتین کے مسائل اور ان کے حل پر رپورٹ، 2023، ج:1، ص:15۔

[115] گرد برڈا شاہی، لرنر گرڈ، نیو یارک: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 1986، ج:1، ص:55۔

[116] احمد، لیلیٰ، خواتین اور جنس: جدید بحث کی تاریخی جڑیں اسلام آباد، نیو ہیون: کانٹیکٹ ییل یونیورسٹی، 1992، ج:1، ص:44۔

[117] قند بوتی، دنیزلر، "پدر شاہی کے ساتھ سودے بازی"، جینڈر اینڈ سوسائٹی 2، شمارہ 3 (1988): 274–290، ج:2، ص:274۔

[118] مغدم، ویلنٹائن ایم، مشرق وسطیٰ میں خواتین اور سماجی تبدیلی: جینڈر اور سماج، بولڈر، CO: لنن رینر پبلیکیشنز، 2003، ج:1، ص:91۔

[119] فریڈن، بیٹی، نسوانی معمہ، نیو یارک: ڈبلیو ڈبلیو نارٹن اینڈ کمپنی، 1963، ج:1، ص:11۔

[120] حسین، فاطمہ، "پاکستان میں روایتی رکاوٹیں اور خواتین کے حقوق"، لاہور: الفتح پبلیکیشنز، 2018، ج:1، ص:13۔

[121] احمد، رضوان، "تعلیم اور خواتین کی خودمختاری"، کراچی: جامعہ کراچی پریس، 2020، ج:1، ص:112۔

[122] رشید، زبیدہ، "کم عمری کی شادی کے اثرات"، اسلام آباد: نیشنل بک فاؤنڈیشن، 2019، ج:1، ص:18۔

[123] خان، عدیل، "ثقافت اور لباس کی تجدیدات"، پشاور: کیبر پبلیکیشنز، 2021، ج:1، ص:60۔

[124] ندیم، فرح، "خواتین اور روزگار کے مواقع"، لاہور: سنگ میل پبلیکیشنز، 2017، ج:1، ص:77۔

[125] فاروق، ارسلان، "معاشرتی ترقی اور خواتین کی شمولیت"، اسلام آباد: قائداعظم یونیورسٹی پریس، 2022، ج:1، ص:39۔

[126] اسمتھ جے، "کم عمری کی شادی اور اس کے نتائج"، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2018، ج:1، ص:45۔

[127] یونی سیف، "عالمی کم عمری کی شادی کی رپورٹ"، 2022، www.unicef.org سے حاصل، ج:1، ص:12۔

[128] احمد ح، "سماجی تبدیلیاں اور بچپن کی شادی"، کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2017، ج:1، ص:98۔

[129] اسلم ج، "کم عمری کی شادی اور اس کے نتائج"، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2018، ج:1، ص:102۔

[130] عالم م، "زچگی صحت اور کم عمری کی شادی"، عالمی ادارہ صحت، 2021، ج:1، ص:54۔

[131] کورس، "جہیز ایک تاریخی پس منظر"، سچ پبلیکیشنز، 2016، ج:1، ص:37۔

[132] نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو بھارت، "2022 سالانہ کرائم رپورٹ"، حکومت بھارت، ج:1، ص:45۔

[133] ریڈی ایم، "2020 جنوبی ایشیا میں جہیز کے خلاف قانونی نظام"، ہارورڈہ ریویو، ج:1، ص:65۔

[134] سین ر، "2019 جہیز کی معیشت"، راؤٹ لیج، ج:1، ص:92۔

[135] خان ع، "2021 سوشل میڈیا اور جہیز مخالفت مہمات"، سوشل چینج جرنل، ج:1، ص:74۔

[136] چودری ایم، "2019 صنفی عدم مساوات اور کم عمری کی شادی کا تعلق"، کیمبرج یونیورسٹی پریس، ج:1، ص:122۔

[137] احمد س، "2017 تعلیم اور کم عمری کی شادی: ایک سماجی تجزیہ"، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، ج:1، ص:158۔

[138] نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو، "بھارت، 2021 سالانہ کرائم رپورٹ"، حکومت بھارت، ج:1، ص:45۔

[139] عالمی ادارہ صحت، "2021 ذہنی صحت اور کم عمری کی شادی کے اثرات"، عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ، ج:1، ص:89۔

[140] پٹیل آر، "2020 خواتین کی خود اعتمادی اور شادی کے روایتی دباؤ"، ج:1، ص:102۔

[141] کمار دی، "2019 غربت، جہیز اور خاندانی مالی بحران"، راؤٹ لیج پبلیکیشنز، ج:1، ص:118۔

[142] سین ر، "2019 معاشی ترقی اور خواتین کی خود مختاری"، راؤٹ لیج پبلیکیشنز، ج:1، ص:125۔

[143] اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام، "2022 خواتین کی ترقی اور معشیت پر اس کے اثرات"، اقوام متحدہ کی رپورٹ، ج:1، ص:150۔

[144] ریڈی ایم، "2020 جنوبی ایشیا میں شادی سے متعلق قانونی اصلاحات"، ہارورڈہ جرنل، ج:1، ص:110۔

[145] علی ح، "2021 مسلم شادیوں میں قانونی اصلاحات"، ہارورڈہ جرنل، ج:1، ص:112۔

[146] یونیسکو، "2022 لڑکیوں کی تعلیم: ایک عالمی تجزیہ"، ماخوذ: www.unesco.org، ج:1، ص:130۔

[147] شرما آر، "2023 جہیز کے خلاف سوشل میڈیا مہمات"، جریدہ برائے سماجی انصاف، ج:1، ص:140۔

[148] بانو ف، "2020 جنوبی ایشیا میں سماجی رویوں میں تبدیلی"، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، ج:1، ص:155۔

[149] خان اے، "2021 سوشل میڈیا اور خواتین کے حقوق"، برائے سماجی انصاف، ج:1، ص:160۔

[150] چغتائی، عائشہ۔ دیہی تعلیم میں خواتین کا کردار۔ لاہور: ایجوکیشنل پریس، 2020، جلد 1، ص 15–22۔

[151] رشید، نعیم۔ معاشی ترقی اور خواتین کی خود مختاری۔ کراچی: اکنامک ریسرچ سینٹر، 2019، جلد 1، ص 33–40۔

[152] عباس، ندیم۔ صحت عامہ کے نظام میں بہتری۔ اسلام آباد: ہیلتھ پبلشنگ ہاؤس، 2021، جلد 2، ص 10–18۔

[153] احمد، شجاعت۔ پاکستان میں سماجی تحفظ کے اقدامات۔ لاہور: سوشل سائنسز انسٹیٹیوٹ، 2020، جلد 1، ص 55–62۔

[154]فاروق، صائمہ۔ خواتین کے حقوق اور قانونی تحفظ۔ اسلام آباد: لیگل اسٹڈیز سینٹر، 2018، جلد 1، ص 70–78۔

[155] نظیر، اقبال۔ زراعت اور خواتین کی شمولیت۔ پشاور: زرعی تحقیقاتی ادارہ، 2019، جلد 2، ص 23–30۔

[156] چغتائی، عائشہ۔ دیہی تعلیم میں خواتین کا کردار۔ لاہور: ایجوکیشنل پریس، 2020، جلد 1، ص 15–22۔

[157] رشید، نعیم۔ معاشی ترقی اور خواتین کی خود مختاری۔ کراچی: اکنامک ریسرچ سینٹر، 2019، جلد 1، ص 33–40۔

[158] احمد، شجاعت۔ پاکستان میں سماجی تحفظ کے اقدامات۔ لاہور: سوشل سائنسز انسٹیٹیوٹ، 2020، جلد 1، ص 55–62۔

[159] فاروق، صائمہ۔ خواتین کے حقوق اور قانونی تحفظ۔ اسلام آباد: لیگل اسٹڈیز سینٹر، 2018، جلد 1، ص 70–78۔

[160] نظیر، اقبال۔ زراعت اور خواتین کی شمولیت۔ پشاور: زرعی تحقیقاتی ادارہ، 2019، جلد 2، ص 23–30۔

[161] القرآن الکریم، سورہ الاسراء، 17:70۔

[162] القرآن۔ سورۃ المجادلة، آیت 11۔

[163] ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 224، کتاب العلم، باب فضل العلماء، تحقیق از محمد فؤاد عبدالباقی (بیروت: دار الفکر، 1952)۔

[164] القرآن، سورۃ النساء 4:32۔

[165] القرآن، سورۃ النساء 4:11۔

[166] سنن ترمذی، حدیث 3895، جامع ترمذی، کتاب الرضاع، باب فی حق المرأۃ علی زوجہا۔

[167]  صحیح بخاری، حدیث 5138، صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب لا ینکح الأب وغیرہ البکر والثیب إلا برضاہما۔

[168] مسند احمد بن حنبل، حدیث 12604، مسند الإمام أحمد، ج: 4، ص: 135۔

[169] القرآن، سورۃ الإسراء 17:70۔

[170]  القرآن، سورۃ المجادلة 58:11۔

[171]  مسند احمد بن حنبل، حدیث 8394، مسند الإمام أحمد، ج: 2، ص: 334۔

[172]  القرآن، سورۃ النساء 4:7۔

[173] سنن ترمذی، حدیث 3895، جامع ترمذی، کتاب الرضاع، باب فی حق المرأۃ علی زوجہا۔

[174] حکومتِ پاکستان، دیہی علاقوں میں خواتین کی ترقیاتی پروگرامز، اسلام آباد: وزارتِ ترقیِ خواتین، 2020، ج: 1، ص: 23۔

[175] یونیسکو، دیہی خواتین کے لیے تعلیم اور تربیت، پیرس: یونیسکو، 2019، ج: 1، ص: 45۔

[176] ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، دیہی علاقوں میں زچگی کی صحت کے اقدامات، جنیوا: ڈبلیو ایچ او، 2021، ج: 1، ص: 37۔

[177] گرامین بینک، دیہی خواتین کے لیے مائیکروفنانس، ڈھاکہ: گرامین بینک، 2022، ج: 2، ص: 18۔

[178]  اقوام متحدہ خواتین، دیہی خواتین کو بااختیار بنانا، نیویارک: اقوام متحدہ خواتین، 2020، ج: 1، ص: 60۔

[179] خان، احمد، دیہی خواتین کے لیے زرعی ترقی، اسلام آباد: ایگری پبلیکیشنز، 2020، ج: 1، ص: 30۔

[180] ایمنسٹی انٹرنیشنل، دیہی علاقوں میں صنفی مساوات کے اقدامات، لندن: ایمنسٹی انٹرنیشنل، 2021، ج: 2، ص: 22۔

[181] اقوام متحدہ ماحولیاتی پروگرام (UNEP)، دیہی خواتین کے لیے ماحولیاتی پائیداری کے پروگرام، نیروبی: یو این ای پی، 2022، ج: 1، ص: 40۔

[182] آئی سی ٹی ترقیاتی ایجنسی، دیہی خواتین کی ڈیجیٹل خواندگی، جنیوا: آئی سی ٹی ڈیولپمنٹ ایجنسی، 2023، ج: 1، ص: 52۔

[183] عالمی دیہی ترقیاتی تنظیم، دیہی خواتین کی مربوط ترقی، واشنگٹن ڈی سی: جی آر ڈی او، 2024، ج: 1، ص: 66۔

[184] نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ (NCHD)، بالغ خواندگی اور بنیادی تعلیم کے پروگرام، اسلام آباد: NCHD پبلیکیشنز، 2023، ج: 1، ص: 39۔

[185] بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP)، وسیلۂ تعلیم اقدام: دیہی خواتین کے لیے تعلیمی مواقع، اسلام آباد: BISP سرکاری رپورٹ، 2022، ج: 2، ص: 25۔

[186] اخوت فاؤنڈیشن، "اخوت مائیکرو فنانس پروگرام"، رسائی 14 فروری 2025، ج: 1، ص: 15۔

[187] حکومتِ پاکستان، "لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام"، رسائی 14 فروری 2025، ج: 1، ص: 20۔

[188] میری اسٹوپس سوسائٹی، "تولیدی صحت اور خاندانی منصوبہ بندی پروگرام"، رسائی 14 فروری 2025، ج: 1، ص: 12۔

[189] یو این وویمن پاکستان، "خواتین کی انصاف تک رسائی کا پروگرام"، رسائی 14 فروری 2025، ج: 1، ص: 28۔

[190] پاکستان مائیکرو فنانس نیٹ ورک، "مائیکرو فنانس اور خواتین کی معاشی بااختیاریت"، 2023، ج: 1، ص: 34۔

[191] حکومتِ پاکستان، "سب کے لیے تعلیم کی پہل"، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد، 2022، ج: 1، ص: 41۔

[192] یونیسیف پاکستان، "ماں اور بچے کی صحت کا منصوبہ"، 2023، ج: 1، ص: 50۔

[193] عورت فاؤنڈیشن، "دیہی خواتین کے لیے قانونی آگاہی"، اسلام آباد: عورت پبلیکیشن، 2023، ج: 1، ص: 19۔

[194] پاکستان رورل سپورٹ پروگرام، "خواتین کی معاشی خودمختاری کے لیے کوآپریٹیو سوسائٹیز"، 2024، ج: 1، ص: 47۔

[195] نائلہ کبیر، انکلوسیو سٹیزن شپ: میننگز اینڈ ایکسپریشنز، زیڈ بکس، 2005، ص: 13-15۔

[196] بشریٰ ملک اور کیتھی کورٹنی۔ "پاکستان میں اعلیٰ تعلیم اور خواتین کی خودمختاری۔" جینڈر اینڈ ایجوکیشن، ج: 23، شمارہ 1، 2011، ص: 1-14۔

[197] بشریٰ ملک اور کیتھی کورٹنی، "پاکستان میں اعلیٰ تعلیم اور خواتین کی خودمختاری،" جینڈر اینڈ ایجوکیشن، ج: 23، شمارہ 1، 2011، ص:-14۔

[198] اے آر چوہدری اور فوزیہ نوشین، "جنوبی پنجاب (پاکستان) میں خواتین کے اختیار کے عوامل: ایک تحقیقی تجزیہ،" یورپین جرنل آف سوشل سائنسز، ج: 10، شمارہ 3، 2009، ص: 347-351۔

[199] تزئین ایس علی اور اورورا گیوینو، "پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد: ایک تجزیاتی فریم ورک،" جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، ج: 58، شمارہ 4، 2008، ص: 78-81۔

[200] بینظیر بھٹو، ریکنسیڈرنگ ویمنز رائٹس ان پاکستان، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 1998، ص: 105-110۔

[201] فاطمہ، سارہ، اور ایملی جانسن، "پاکستان میں خواتین کی ڈیجیٹل شمولیت: مواقع اور چیلنجز،" انٹرنیشنل جرنل آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ سوسائٹی، ج: 12، شمارہ 2، 2020، ص: 45-60۔

[202] ندیم، عائشہ، اور جیمز پیٹرسن، "پاکستان میں خواتین کا زرعی شعبے میں کردار: چیلنجز اور مواقع،" ایگریکلچرل اکنامکس جرنل، ج: 15، شمارہ 1، 2018، ص: 89-104۔

[203] یوسف، کرن، اور میلکم براؤن، "پاکستان میں خواتین کی سیاسی شرکت: ایک تجزیاتی جائزہ۔، پولیٹیکل اسٹڈیز ریویو، ج: 20، شمارہ 3، 2022، ص: 230-250۔

[204] احمد، زبیر، اور لیندا ولیمز، "پاکستان میں میڈیا اور این جی اوز کے ذریعے خواتین کی خودمختاری،" سوشیالوجیکل ریسرچ جرنل، ج: 18، شمارہ 2، 2021، ص: 112-130۔

[205] خان، احمد، "دیہی علاقوں میں ریڈیو کی اہمیت اور معلوماتی رسائی: ایک تحقیقی مطالعہ"، لاہور: الفتح پبلی کیشنز، 2020، ج: 1، ص: 15۔

[206] علی، فاطمہ، "ٹیلی ویژن کے ذریعے خواتین میں شعور اجاگر کرنے کے اثرات"، کراچی: جامعہ کراچی پریس، 2018، ج: 1، ص: 22۔

[207] احمد، یاسر، "حکومتی اور نجی نشریاتی ادارے: دیہی ترقی میں کردار"، اسلام آباد: نیشنل میڈیا انسٹی ٹیوٹ، 2019، ج: 1، ص: 31۔

[208] رضا، زین، "سوشل میڈیا اور خواتین کے حقوق: ایک جدید تجزیہ"، لاہور: دانشور پبلی کیشنز، 2021، ج: 1، ص: 44۔

[209] حسن، سمیع، "ڈیجیٹل آگاہی مہمات اور دیہی خواتین: ایک عملی جائزہ"، اسلام آباد: اکیڈمک پبلی کیشنز، 2022، ج: 1، ص: 18۔

[210] شاہد، سعدیہ، "این جی اوز اور دیہی خواتین کی تعلیمی ترقی"، لاہور: ویژن پبلی کیشنز، 2020، ج: 1، ص: 59۔

[211] بانو، عائشہ، "دیہی خواتین کے لیے ووکیشنل ٹریننگ کے فوائد"، کراچی: الفتح بکس، 2017، ج: 1، ص: 34۔

[212] فاروق، زاہد، "خواتین کے قانونی حقوق: ایک تفصیلی تحقیق"، اسلام آباد: نیشنل لیگل انسٹی ٹیوٹ، 2019، ج: 1، ص: 66۔

[213] جمیل، نوید، "موبائل لیگل کلینکس: دیہی علاقوں میں قانونی مدد کی سہولت"، لاہور: قانون پبلی کیشنز، 2021، ج: 1، ص: 24۔

[214] رحمان، یاسمین، "دیہی علاقوں میں ماں اور بچے کی صحت پر این جی اوز کا کردار"، لاہور: ہیلتھ ریسرچ سینٹر، 2018، ج: 1، ص: 19۔

[215] سعید، کامران، "دیہی ہیلتھ ورکرز: ایک تقابلی جائزہ"، کراچی: یونیورسل پبلی کیشنز، 2022، ج: 1، ص: 40۔

[216] نوید، احمد، "دیہی خواتین کے لیے غیر رسمی تعلیمی مراکز کی افادیت"، اسلام آباد: تعلیمی ترقیاتی انسٹی ٹیوٹ، 2020، ج: 1، ص: 28۔

[217] خالد، سمیرا، "بالغ خواتین کی تعلیم: 'نئی روشنی اسکیم' کا تجزیہ"، لاہور: ایجوکیشنل بکس، 2018، ج: 1، ص: 21۔

[218] اقبال، فہیم، "دیہی خواتین کے مسائل پر جامعات کی تحقیقی سرگرمیاں"، لاہور: دانشور پبلی کیشنز، 2019، ج: 1، ص: 36۔

[219] شاہ، حمزہ، "طلبہ اور محققین کی دیہی خواتین میں شعور بیداری کی کوششیں"، کراچی: نالج بکس، 2021، ج: 1، ص: 29۔

[220] حمید، زارا، "نصاب میں خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات کی شمولیت"، اسلام آباد: نیشنل ایجوکیشن پریس، 2022، ج: 1، ص: 17۔

[221] علی، جاوید، "کمیونٹی ورکشاپس اور دیہی خواتین کی شمولیت"، لاہور: کمیونٹی ڈویلپمنٹ پبلی کیشنز، 2022، ج: 1، ص: 35۔

[222] رحمان، عدنان، "کمیونٹی لیڈرز اور خواتین گروپوں کی دیہی ترقی میں شراکت"، اسلام آباد: ریجنل ڈیولپمنٹ سینٹر، 2021، ج: 1، ص: 23۔

[223] قریشی، عمران، "حکومتی اسکیمیں اور دیہی خواتین کی بہبود"، کراچی: نیشنل پالیسی ریسرچ سینٹر، 2021، ج: 1، ص: 30۔

[224] ملک، زاہد، "کسان خواتین کی ترقی: حکومتی اقدامات کا جائزہ"، لاہور: زرعی پبلی کیشنز، 2019، ج: 1، ص: 42۔

[225] شمسی، حارث، "دیہی خواتین کی ترقی میں 'یو این ویمن' اور 'ورلڈ بینک' کا کردار"، اسلام آباد: انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ، 2022، ج: 1، ص: 26۔

[226] کریم، سلمان، "بین الاقوامی تنظیموں کے تعاون سے مقامی پالیسیوں کا نفاذ"، لاہور: پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، 2020، ج: 1، ص: 39۔

[227] شاہ، زاہد، "دیہی خواتین میں مقامی سطح پر شمولیت کے فوائد"، اسلام آباد: سوشیالوجی بکس، 2020، ج: 1، ص: 33۔

[228] خان، نعمان، "مقامی میڈیا کا کردار اور خواتین کی آگاہی"، کراچی: میڈیا ریسرچ سینٹر، 2019، ج: 1، ص: 25۔

[229] رضا، حارث، "ڈیجیٹل میڈیا اور خواتین کے حقوق کی آگاہی"، لاہور: ڈیجیٹل سوسائٹی پبلی کیشنز، 2021، ج: 1، ص: 38۔

[230] رحمن، زبیر، "ثقافتی اور سماجی روایات کے چیلنجز"، اسلام آباد: ریجنل اسٹڈیز سینٹر، 2019، ج: 1، ص: 41۔

[231] رضا، حارث، "ڈیجیٹل میڈیا اور خواتین کے حقوق کی آگاہی"، لاہور: ڈیجیٹل سوسائٹی پبلی کیشنز، 2021، ج: 1، ص: 38۔

[232] رحمن، زبیر، "ثقافتی اور سماجی روایات کے چیلنجز"، اسلام آباد: ریجنل اسٹڈیز سینٹر، 2019، ج: 1، ص: 41۔

[233] حمید، عالیہ، "دیہی خواتین کی تعلیمی رکاوٹیں اور حل"، لاہور: نالج بکس، 2022، ج: 1، ص: 27۔

[234] جمیل، طارق، "قانونی معاونت کی عدم دستیابی اور دیہی خواتین کے مسائل"، کراچی: لا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، 2021، ج: 1، ص: 43۔

[235] قریشی، فہد، "پالیسیوں میں تسلسل کی کمی اور اس کے اثرات"، اسلام آباد: پالیسی انسٹی ٹیوٹ، 2021، ج: 1، ص: 32۔

[236] شاہد، نبیلہ، "نوجوان نسل کی تعلیم اور مستقبل کے امکانات"، لاہور: یوتھ ایجوکیشن پریس، 2020، ج: 1، ص: 20۔

[237] ملک، فہد، "مقامی حکومتوں اور این جی اوز کی شراکت داری"، کراچی: گورننس ریسرچ سینٹر، 2022، ج: 1، ص: 37۔

[238] رضا، سفیان، "ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال اور خواتین کی ترقی"، اسلام آباد: ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن انسٹی ٹیوٹ، 2021، ج: 1، ص: 45۔

[239] جمیل، عدنان، "دیہی خواتین کے حقوق کے لیے قانونی اصلاحات"، لاہور: لا اینڈ جسٹس پبلی کیشنز، 2021، ج: 1، ص: 46۔


No comments